وسیم اکرم: لاہور کی گلیوں سے ورلڈ کپ فائنل تک
وسیم اکرم: لاہور کی گلیوں سے ورلڈ کپ فائنل تک
میں اکثر خود سے الجھتا ہوں کہ آخر مجھے وسیم اکرم کو کس تناظر میں یاد کرنا چاہیے۔ وہ دنیائے کرکٹ میں بائیں ہاتھ کے بہترین فاسٹ بالر رہ چکے ہیں مگر میچ فکسنگ کے سائے بھی ان کی ذات پر منڈلاتے رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے اس یادگار دن کی سالگرہ تھی جب وسیم اکرم نے ایک روزہ میچز میں 400 وکٹوں کا ریکارڈ قائم کیا تھا، اور اسی موقع کو مد نظر رکھتے ہوئے میں تلخ یادوں کو ایک طرف رکھ کر ان خوشیوں کو تذکرہ کرنے جا رہا ہوں جو وسیم اکرم کی بدولت ہماری زندگیوں کا حصہ بنیں۔
1992
گیند آف اسٹمپ یا اس کے دوسری طرف شارٹ پچ پر پھینکی گئی۔ اب ایلن لیمب کیا کریں؟ آگے آئیں؟ مگر گیند فل لینتھ بھی نہیں۔ پیچھے رہیں؟ مگر گیند شارٹ بھی تو نہیں۔ بس یوں ان کی وکٹ اڑ گئی۔
اگلی گیند آف اسٹمپ سے کافی دور پھینکی گئی۔ کرس لیوس اپنی فرنٹ لیگ سامنے لے آئے مگر کافی دیر ہو چکی تھی؛ بال کو وکٹوں سے بچانے میں ناکام رہے۔ دو گیندوں پر دو وکٹیں، میچ پر گرفت مضبوط۔
اگر وسیم اکرم کے ہنر کے بارے میں کسی کو شکوک و شبہات تھے، تو ان گیندوں نے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور کر دیا تھا۔
وہ نفیس ترین کرکٹرز میں سے ایک ہیں اور قسمت یہ اعلان کرکٹ کے عالمی میلے کے اسٹیج پر کرنا چاہتی تھی۔
انہوں نے 18 گیندوں پر 33 رنز بنائے اور پاکستان نے اپنی باری کا اختتام مجموعی طور پر 249 اسکور کے ساتھ کیا۔ جب انگلینڈ 141 پر 4 وکٹیں گرنے پر مطمئن دکھائی دے رہی تھی، تب عمران خان نے وسیم اکرم کو گیند تھما دی۔ 87 ہزار کی ریکارڈ تعداد میں موجود تماشائیوں کے سامنے پہلے انہوں نے اپنے بلے کے ساتھ کمال دکھایا اور پھر گیند کے ساتھ۔ کہیں وہ جادوگر تو نہیں؟
1997
1992 میں کرکٹ کے اس جوش و جذبے کا مشاہدہ کرنے کے لحاظ سے میری عمر کافی کم تھی، مگر پاکستان کرکٹ سے میری محبت کا آغاز 1996/97 میں آسٹریلیا میں منعقدہ کارلٹن اینڈ یونائیٹڈ سیریز کے دوران ہوا۔ میں پانچ برس کا تھا اور مجھے یاد ہے کہ میں غیر معمولی طور پر سردیوں کے یخ بستہ دنوں میں صبح سویرے میچز دیکھنے کے لیے اٹھ جایا کرتا تھا۔
وسیم نئے عمران تھے۔ میں نے اس سے پہلے عمران خان کو صرف میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں واٹرفورڈ کرسٹل ٹرافی اٹھائے ہوئے ایک ویڈیو میں دیکھ رکھا تھا۔
اس بار اسی گراؤنڈ پر وسیم اکرم ٹرافی تھامے ہوئے تھے اور میں وہ مناظر براہ راست ٹی وی پر دیکھ رہا تھا۔ ان کی فاتحانہ تقریر میں ماہ رمضان کا حوالہ بھی شامل تھا۔ میں ان کا مکمل طور پر مداح بن چکا تھا۔
2002
ایک بار پھر ہم آسٹریلیا میں ہیں۔ وسیم اکرم اب 36 سالہ ایک تجربہ کار کھلاڑی ہے جو نہ جانے کتنے طوفانوں کا سامنا کر چکا ہے۔ وہ وقفے وقفے کے ساتھ کئی بار کپتان بھی رہ چکے تھے اور ایک آخری بار کپتانی سنبھالنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ میچ فکسنگ تحقیقات سے بری ہو چکے تھے اور تقریباً 7 برس سے ذیابیطس جیسی بیماری سے جنگ لڑ رہے تھے۔
وہ آف اسٹمپ پر تھوڑی سی شارٹ پچ گیند کرواتے ہیں۔ ایڈم گلکرسٹ نہیں جانتے کہ آیا انہیں آگے جانا چاہیے یا پھر پیچھے جمے رہنا چاہیے۔ گیند پچ پر لگنے کے بعد ان سے دور نکل جاتی ہے۔
گیند کو دور جاتا دیکھنے کے لیے شاید آپ کو محدب شیشہ درکار ہو مگر گیند واقعی دور جا رہی تھی۔ یہی تھے کلاسک وسیم اکرم، کہ بیٹسمین کو آخری سیکنڈ تک پریشان رکھا جائے۔ گلکرسٹ اپنے سیدھے بلے کے ساتھ گیند کو کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر گیند بلے کے کنارے سے لگ کر کیپر کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے۔
اگلے کھلاڑی رکی پونٹنگ ہیں۔ ہر بائیں ہاتھ کے بالر کا خواب ہوتا ہے کہ وہ دائیں ہاتھ کے بیٹسمین کو ایسی بالنگ کروائے کہ جس میں گیند اندر کی جانب لائی جا سکے؛ وسیم اکرم یہ کام آنکھوں پر پٹی باندھ کرسکتے ہیں۔
ان کی بالنگ اب 1992 کے دنوں جیسی تو نہیں ہے مگر اس بار گیند اندر آتی ہے، پونٹنگ کے پیڈ کو چھوتی ہے، بیٹ کو لگتی ہے اور ہوا میں اڑ جاتی ہے۔ اس کے بعد وسیم 20 سالہ شاہد آفریدی کی طرح چھلانگ مار کر کیچ پکڑتے ہیں۔ میچ پر اپنی گرفت مضبوط کر لیتے ہیں۔
آپ وسیم اکرم کی باؤلنگ کی کوئی بھی پرانی کلپ اٹھا کر دیکھ لیں، اسے آپ بہترین اور عمدہ باؤلنگ کی مثال کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ صرف 10 قدم کے اسٹارٹ سے باؤلنگ کرواتے تھے۔ آخر کوئی کس طرح اتنے سادہ اور پیچیدگیوں سے پاک باؤلنگ میں بھی جادو دکھا سکتا ہے؟
مگر یہ جادو صرف بیٹسمین کو جھانسا دینے کے لیے محتاط مگر شاطر چالوں کا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ باؤلنگ کی رفتار اور دہشت کا بھی کمال تھا، اتنی جو برائن لارا کا پیر زخمی کرنے اور لینس کیئرنس کو ہسپتال بھیجنے کے لیے کافی تھی۔
عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ہی رفتار میں کمی واقع ہونی لگی، مگر وسیم اکرم نے اپنے سوئنگ کے طرز پر عبور حاصل کر لیا تھا جو کہ ان کا جادو برقرار رکھنے کے لیے کافی تھا۔ بنیادی طور پر ان کی باؤلنگ کے طرز میں ہر وہ پہلو شامل تھا جسے آپ ایک عمدہ باؤلنگ کے لیے تصور کرتے ہیں۔
2011
9 برس بعد کی بات کرتے ہیں۔ وہ 45 برس کے ہیں اور کولکتہ نائٹ رائڈرز کے ساتھ بطور باؤلنگ کنسلٹنٹ کام کر رہے ہیں۔ انگلینڈ کے اوئن مورگن سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کس مشکل ترین باؤلر کا سامنا کیا ہے۔ ان کا جواب ہے:
وسیم اکرم نے کریئر کا آغاز بھی پاکستان میں موجود دیگر زیادہ تر کم عمر کرکٹرز کی ہی طرح ٹیپ بال کرکٹ کھیل کر کیا۔
پرانے لاہور کی گلیوں میں کھیل کر کرکٹ پر مہارت حاصل کرنے والے کی صلاحیتوں پر جب ایک مقامی کرکٹر کی نظر پڑی تو وہ وسیم اکرم کو لدھیانہ جیم خانہ لے گئے۔
یہاں لاہور کرکٹ کے ایک لیجنڈ سعود خان نے انہیں ترتیبت دینی شروع کی۔ مگر سعود، جنہوں نے اپنا کریئر شہر کی انڈر 19 اور کالج ٹیموں کی کوچنگ میں گزارا تھا، کو زیادہ کریڈٹ نہیں دیا جا سکتا۔
کیوں کہ بہرحال بطور ایک شخص، باؤلر اور کپتان وسیم اکرم کی صلاحیتوں میں نکھار کے پیچھے عمران خان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ وسیم اکرم اپنے اکثر انٹرویوز میں اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ عمران انہیں ہر اوور کی ہر گیند پر گائیڈ کیا کرتے تھے۔
کسی حد تک، باؤلنگ کا ہنر انہیں فطری طور پر آتا ہے، مگر اس بات سے وسیم اکرم کے کریئر کا ایک دوسرا ضروری پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے، کہ وہ شروع سے آخر تک، سخت محنت کے عادی تھے۔
وہ اکثر صرف ایک گیند کو پرفیکٹ بنانے کی کوشش میں گھنٹوں کے گھنٹوں نیٹ میں گزارتے تھے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جنوبی افریقا کے خلاف ایک ہی اوور میں وہ تین ایسی گیندیں کروانے میں کیسے کامیاب رہے جنہیں کھیلنا ناممکن تھا؟
قذافی اسٹیڈیم میں انتظامیہ کے پرانے افراد سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ وہ بنا کسی وقفے کے مسلسل باؤلنگ جاری رکھتے تھے۔
ان کا منتر ان کے عمل جتنا ہی سادہ تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ اوورز باؤلنگ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ دور کے باؤلرز کے مداح نہیں ہیں جو نیٹ میں پریکٹس کرنے کے بجائے جم میں ورزش کرتے رہتے ہیں۔
مگر بات صرف یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ بائیں بازو کا عظیم ترین فاسٹ باؤلر ہونے کے ساتھ وہ ایک اچھے کپتان بھی تھے۔ اگرچہ کپتانی کا ہنر انہیں فطری طور پر نہیں آیا تھا، یا کم از کم پہلی دفعہ میں تو ایسا نہیں ہوا تھا۔
انہیں پہلی بار کپتانی تب ملی جب ان سے قبل ٹیم کے کپتان رہنے والے جاوید میانداد کے خلاف کھلاڑیوں کی بغاوت ہوئی۔ ان کا پہلا دورِ کپتانی 5 ٹیسٹ اور 23 ایک روزہ میچ پر محیط ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وسیم چاہتے ہیں اظہر علی موجودہ ایک روزہ ٹیم کی طویل عرصے تک قیادت کریں۔
مگر ان کے آخری بار کپتان بننے تک ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں تمام شکوک و شبہات دم توڑ چکے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے اندر قائدانہ دانشمندی اور خود اعتمادی پیدا کی جو فطری طور پر عمران خان میں موجود تھی۔ انہوں نے وہی کیا جو ان کے استاد نے کیا تھا — وسیم ہمیشہ میچ جتانے والے کھلاڑیوں کی حمایت کرتے، جو پھر اپنی کارکردگی بھی بخوبی انجام دیتے تھے۔
اسپنر بطور ایک تباہ کن باؤلر؟ وسیم اکرم نے ثقلین میں ضرور ایک ہنر پرکھ لیا تھا، لہٰذا انہوں نے ثقلین سے یہ کام تقریباً کمال کی حد تک کروایا۔ وسیم اکرم کی زیرِ رہنمائی عبدالرزاق بطور ایک آل راؤنڈر ابھر کر سامنے آئے۔ شاہد آفریدی، اظہر محمود، شعیب اختر اور دیگر کھلاڑی بھی اس فہرست میں شمارہیں۔
1999 میں 12 برس کے بعد پاکستانی ٹیم ٹیسٹ سیریز کے لیے دورہ ہندوستان پر تھی۔ ہندوستان کو پہلے ٹیسٹ میں فتح حاصل کرنے کے لیے 231 رنز درکار تھے جبکہ ان کے پاس 8 وکٹیں اور دو دن اب بھی باقی تھے۔ کھیل شروع ہونے سے قبل جب ٹیم جمع ہوئی تو وسیم اکرم نے اپنی ٹیم کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ ان سے کیا کروانا چاہتے ہیں، صرف چند لفظوں کا انتخاب کیا:
"بوائز، ایک بات امپورٹنٹ یاد رکھنی ہے کہ گرنا نہیں ہے۔"
ایسی صورتحال میں انتہائی کم وقت میں اس سے زیادہ اور کوئی عقلمندانہ بات ہو سکتی تھی؟ دیکھا جائے تو ان لفظوں میں ان کا اپنا تمام کریئر بھی مقید تھا۔ کھلاڑیوں کی بغاوت، میچ فکسنگ، ذیابیطس، وہ ان تمام مشکل مراحل سے گزرے مگر اپنے جادو کا سفر جاری و ساری رکھا۔
ان کے لفظوں نے ٹیم کو اس قدر متحرک کیا کہ پاکستان نے چند تناؤ بھرے لمحات کا مقابلہ کرنے بعد اس مشکل میچ میں فتح حاصل کرلی اور ایک صفر سے سیریز اپنے نام کر لی۔
عمران خان کے ساتھ موازنا ناگزیر تھا مگر وہ انہیں پھر بھی وہ مرتبہ حاصل نہیں ہے جو عمران خان کو حاصل ہے — 1999 میں وہ ورلڈ کپ میں فتح حاصل کرتے کرتے رہ گئے۔ جو بھی ہو مگر وسیم اکرم اپنی ٹیم میں ناقابل تسخیر ہونے کا احساس جگانے میں ضرور کامیاب رہے۔
لنکاشائر، جہاں وسیم اکرم تقریباً 10 سیزن تک کاؤنٹی کا حصہ رہے، وہاں وہ 'کنگ' کے نام سے جانے جاتے تھے۔
سابق برطانوی کھلاڑی اور کوچ، اور اسکائے ٹی وی کے مقبول تبصرہ نگار ڈیوڈ لائڈ نے بتایا کہ بطور کپتان اپنے پہلے میچ میں وسیم اکرم نے ٹیم کو ڈریسنگ روم میں جمع ہونے کو کہا۔ ان کے لفظ یہ تھے، "کم آن۔ میرا خواب ہے۔"
اب یہ آپ پر ہے کہ اس بات کا مطلب کیا تھا۔۔