پاکستان

خیبرپختونخوا کی 'غیر قانونی اسلحہ فیکٹریاں' بند کرانے کا مطالبہ

وفاقی حکومت ملک میں غیرقانونی اسلحہ کی ترسیل اور خریدوفروخت کو روکنے کے اقدامات اٹھائے، سندھ اسمبلی کی قرارداد

کراچی: سندھ اسمبلی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صوبہ خیبرپختونخوا میں قائم 'غیر قانونی اسلحہ ساز فیکٹریاں' بند کرائے کیونکہ یہ غیر قانونی اسلحہ ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی کے اراکین نے اجلاس کے دوران 15 مارچ سے شروع ہونے والی مردم شماری مہم میں ہر فرد کا اندراج یقینی بنانے پر بھی زور دیا۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رکن صوبائی اسمبلی کامران اختر نے قرار داد پیش کی تھی جس میں وفاقی حکومت سے خیبرپختونخوا میں اسلحہ تیار کرنے کی غیر قانونی فیکٹریوں، اس کی خرید و فروخت اور اس کی ملک بھر میں اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مذکورہ قرار داد پر تفصیلی بحث کے بعد ایوان نے اسے منظور کرلیا۔

منظور کی گئی قرار داد کے متن کے مطابق 'یہ اسمبلی اس بات کا عزم کرتی ہے اور سندھ حکومت کو تجویز دیتی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود غیر قانونی اسلحہ ساز فیکٹریوں، اس اسلحہ کی خریدو فروخت اور ملک میں اس کی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے بات چیت کرے، جو ملک میں نقص امن کی وجہ ہے'۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اس موقع پر نشاندہی کی کہ سندھ حکومت اس حوالے سے رواں سال کی پہلی صوبائی ایپکس کمیٹی میں اقدامات اٹھا جاچکی ہے۔

2 جنوری کو ہونے والے اجلاس میں مذکورہ معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا اور اس سے متعلق کچھ فیصلے بھی لیے گئے، جن میں ایک وفاقی وزارت داخلہ کو سندھ میں غیر قانونی اسلحہ کی فراہمی کے حوالے سے خط تحریر کرنا بھی تھا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے خط میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ صوبے میں ایک کارروائی کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 900 غیر قانونی ہتھیار ضبط کیے تھے جن میں سے 750 درہ آدم خیل کی فیکٹری کے تیار کردہ تھے، اس لیے ہم نے وفاقی وزارت داخلہ سے ان غیر قانونی اسلحہ ساز فیکٹریوں کو بند کرنے کا کہا۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ 'صوبے بھر میں غیر قانونی ہتھیاروں کی نگرانی کیلئے ہم ہر قسم کے اقدامات بروکار لائیں گے'۔

انھوں نے کہا کہ جو فیکٹریاں بھی ہتھیار تیار کررہی ہیں انھیں صرف سیکیورٹی فورسز کی مطلوبہ ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہتھیار تیار کرنے چاہیے اور یہ ہتھیار عام آدمی کی پہنچ سے دور ہونے چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قرار داد ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کررہی ہے اور سندھ حکومت اس کی مخالفت نہیں کرے گی۔

ایم کیو ایم کے رہنما سید سردار احمد نے نشاندہی کی کہ ان کی جماعت نے کچھ سال قبل قومی اسمبلی میں 'ہتھیاروں سے پاک پاکستان' یا آرمز فری پاکستان کے نام سے ایک بل پیش کیا تھا تاہم اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم، ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹرفاروق ستار مذکورہ بل کو قومی اسمبلی کی کارروائی کا حصہ بنانے کیلئے پیش کریں گے۔

مردم شماری کی آگاہی مہم

اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی میں ایم کیو ایم کی رکن ناہید بیگم نے مردم شماری کے حوالے سے آگاہی اور شعور پیدا کرنے کیلئے ایک قرار داد پیش کی، جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

قرار داد کے حوالے سے بحث میں شریک ہوتے ہوئے پارلیمانی امور کے سینئر وزیر نثار کھہوڑو کا کہنا تھا کہ مردم شماری صوبے کے مستقبل کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے یہ ہر سیاسی جماعت کا فرض ہے کہ وہ مردم شماری کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کرے، جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہے۔

ماضی کی نشاندہی کرتے ہوئے نثار کھہوڑو کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے معاملے میں سندھ ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہا ہے۔

خیال رہے کہ قانون کے مطابق مردم شماری ہر دس سال بعد کی جانی چاہیے تاہم ملک میں آخری مرتبہ مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی۔

تاہم اب سپریم کورٹ کی جانب سے وفاقی حکومت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ مردم شماری کرائی جائے اور دوسری صورت میں ان کے خلاف توہین عدالت کے حوالے سے کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

سینئر صوبائی وزیر نے ایوان کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں مردم شماری 15 مارچ کو کراچی کے 6 اضلاع، حیدرآباد اور گھوٹکی میں ہوگی جبکہ دوسرے مرحلے میں رواں سال اپریل کے دوران مردم شماری صوبے کے دیگر اضلاع میں کی جائے گی۔

انھوں نے بتایا کہ مردم شماری سے قبل مکانات کی فہرست بھی ترتیب دی جائے گی، ہر شمار کنندہ کے ساتھ ایک فوجی اہلکار ہوگا جبکہ مردم شماری فارم شمار کنندہ کی جانب سے پُر کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کا کام 10 یوم میں مکمل کرلیا جائے گا۔

نثار کھہوڑو کا کہنا تھا کہ مردم شماری کیلئے قومی شناختی کارڈ کو لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن سندھ میں کچھ علاقوں ایسے بھی ہیں جہاں 20 سے 30 فیصد لوگوں کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود نہیں ہیں۔

اس موقع پر مسلم لیگ فنکشنل کی رکن صوبائی اسمبلی نصرت سہر عباسی نے کہا کہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وفاقی حکومت ہر اچھا کام سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کرتی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن صوبائی اسمبلی خیر نساء مغل کا کہنا تھا کہ مردم شماری سندھ کی بقا کا مسئلہ ہے اور اس عمل کو کامیاب بنانے کیلئے ہر سیاسی پارٹی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ایم کیو ایم کے سید فیصل سبزواری نے کہا کہ یہ ہر شہری کا حق ہے کہ اسے مردم شماری میں شمار کیا جائے لیکن کراچی کو ماضی میں ہمیشہ پیچھے رکھا گیا ہے۔

مذکورہ قرار داد کے مطابق 'اسمبلی اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ صوبائی حکومت ملک کی چھوتھی مردم شماری سے قبل خواتین کیلئے آگاہی مہم کے آغاز کے اقدامات کرے گی'۔

اس قرار دادا کو بحث کے بعد متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

یہ رپورٹ 25 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی