لاپتہ افراد پر گستاخی کے الزامات، اہل خانہ کی مذمت
اسلام آباد: حالیہ دنوں میں لاپتہ ہونے والے سماجی کارکنوں کے اہل خانہ اور حمایتی افراد نے اپنے پیاروں کے خلاف جاری منفی پروپیگنڈے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ الزامات ان افراد کی واپسی پر ان کے لیے جان کا خطرہ بن جائیں گے۔
آن لائن اور پولیس کو درج کروائی گئی شکایت میں لگائے جانے والے الزامات نے پاکستان میں موجود سماجی کارکنان کی مختصر کمیونٹی کو بے چینی میں مبتلا کردیا ہے، لاپتہ سماجی کارکنان سلمان حیدر اور وقاص گورایا کے اہل خانہ کی جانب سے ان تمام الزامات کو 'بدنیتی پر مبنی مہم' کا حصہ قرار دیا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں افراد کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ مہم کا مقصد صرف عوامی جذبات کا دھیان ہماری اور ہمارے پیاروں کی بری حالت سے ہٹانا ہے جنہیں غیر قانونی طور پر اغواء کرلیا گیا ہے۔
4 جنوری سے گمشدہ پانچوں افراد کے ساتھیوں نے کسی بھی گستاخی کے الزام کو غلط قرار دیا جبکہ کچھ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اخبارات کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا ان افراد کی گمشدگی میں ریاست یا ملٹری ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے امکانات تو نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سماجی کارکنوں کی گمشدگی کی گونج پارلیمنٹ میں
وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ وہ ان افراد کی تلاش کے حوالے سے معلومات اکھٹی کررہے ہیں جبکہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مطابق انہوں نے ان افراد کو گرفتار نہیں کیا، دیگر ریاستی اداروں اور ملٹری کی جانب سے بھی معاملے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آسکا۔
ماہ جنوری کے آغاز میں لاپتہ ہونے والے افراد میں بائیں بازو کے لکھاری اور پروفیسر سلمان حیدر سمیت بلاگرز وقاص گورایا، عاصم سعید، احمد رضا نصیر اور کراچی میں انسداد دہشت گردی کے لیے سرگرم گروپ کے سربراہ ثمر عباس شامل ہیں۔
ریشنلسٹ سوسائٹی آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے حیدر شاہ کا کہنا تھا کہ گستاخی کے الزمات نے سماجی کارکنوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے، اگر وہ کسی الزام کے بغیر آزاد ہو بھی جاتے ہیں تو شدت پسند انہیں اپنا نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد کی بقیہ زندگی ان الزامات سے فرار حاصل کرنے میں گزر جائے گی۔
ان گمشدہ افراد کے خلاف لگائے جانے والے الزامات میں سے پہلا الزام 9 جنوری کو فیس بک پر ’پاکستان ڈیفنس‘ نامی فیس بک پیج پر سامنے آیا تھا، جس پر شائع کیے گئے ایک گم نام اردو پیغام میں سلمان حیدر، وقاص گورایا، اور عاصم سعید کا تعلق فیس بک گروپ ’بھینسا‘ سے ظاہر کیا گیا تھا، جو اس پیغام کے مطابق قرآن کی گستاخی میں ملوث ہے۔
مزید پڑھیں: سماجی کارکن پروفیسر سلمان حیدر لاپتہ
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی جانب سے جب پاکستان ڈیفنس نامی اس پیج سے بذریعہ ای میل رابطہ کیا گیا تو اس کے ایڈمن نے جواب دیا کہ ان کا پیج اور ویب سائٹ مباحثے کا ایک عوامی پلیٹ فارم ہے اور یہاں پر شائع ہونے والے تبصرے پیج کے ارکان کی جانب سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر شیئر کیے جاتے ہیں۔
منتظم کا مزید کہنا تھا کہ کئی پیغامات میں ملک کی فوج کو سراہا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ افواج پاکستان کا ان سے کوئی تعلق ہے۔
واضح رہے کہ سول سوسائٹی آف پاکستان کی جانب سے گذشتہ ہفتے پولیس کو گمشدہ افراد کے خلاف درج کرائی گئی ایک شکایت میں مطالبہ کیا گیا تھا ان افراد کو گستاخی رسول کا مرتکب قرار دیا جائے۔
تنظیم کے چیئرمین طارق اسد کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ شکایت کیس کے بارے میں جاننے کے بعد درج کرائی ہے۔
اسلام آباد کے پولیس افسر خالد اعوان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ شکایت کا قانونی جائزہ لیا جارہا ہے تاہم اب تک کسی باضابطہ جرم کے الزمات قائم نہیں کیے جاسکے۔
یہ خبر 19 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔