لکھاری سینٹر فار ڈویلپمنٹ پالیسی ریسرچ لاہور کے فیلو ہیں۔
ٹھوس معلومات کے بغیر، اور صرف جذباتی باتوں کی موجودگی میں کوئی آخر کس طرح سی پیک کے مجوزہ منصوبوں اور متعلقہ سرمایہ کاریوں پر مکمل طور پر عبور حاصل کر سکتا ہے؟
اس منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے کسی قسم کے بھروسہ مند طریقہ کار کی عدم موجودگی کی وجہ سے میرا خیال ہے کہ ہم اس منصوبے کا تاریخی حوالوں کی روشنی میں جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس سے ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے۔ گمراہ کن مفروضوں سے بہتر ہے کہ کچھ تبادلہ خیال حقیقی تجربے کی بنیاد پر کیا جائے۔
بیسویں صدی کی ابتداء میں برٹش نے برصغیر کے اس حصے پر بے تحاشہ سرمایہ کاری کی جو حصہ آج پاکستان کی صورت میں موجود ہے۔ ان سرمایہ کاری منصوبوں میں نہری اور بیراجی نظام، ڈاک اور ٹیلی گراف، اور سڑکیں اور ریلوے شامل تھے۔ ان تمام منصوبوں کو ملا کر دیکھیں تو حقیقی بنیادوں پر یہ سرمایہ کاری سی پیک کے 56 ارب ڈالر سے زیادہ بنی ہوگی۔
ان تمام سرمایہ کاریوں سے کیا حاصل ہوا اور کون سی پائیدار اقتصادی تبدیلیاں رونما ہوئیں؟ اگر وسیع تناظر میں دیکھیں تو پاکستان ایک انتہائی غریب ملک ہے جس کی آبادی کا ایک تہائی حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ نصف کے قریب آبادی صاف پانی, صفائی اور صحت کی معیاری سہولیات سے عاری، اور بس گزارے لائق پڑھی لکھی ہے۔ جبکہ شرح نمو، غذائی قلت اور زچہ و بچہ کی شرح اموات باقی دنیا کے ملکوں کی صورتحال سے کئی گنا بدتر ہے۔
سنجیدہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھلے ہی سرمایہ کاریوں سے کثیر اقتصادی منافع حاصل ہوا ہو، بدعنوان طرز حکمرانی ہوگی تو چند افراد ہی امیر بنیں گے اور بہت ہی کم فوائد کسی حد تک نیچے، اکثریت تک پہنچ پائیں گے۔
طرز حکمرانی اور تقسیم کے مسائل کے باوجود، جو کہ پہلے کی طرح اب بھی اتنے ہی اہم ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرمایہ کاریوں سے بے تحاشہ اقتصادی منافعے حاصل ہوئے؟ اگر اس سوال کا عقلمندانہ طور پر جائزہ لینا ہو تو آپ کو ان سرمایہ کاریوں کو الگ الگ کر کے تجزیہ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
چلیے نہری نظام اور بیراجوں کی بات کرتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ زیادہ تر لوگ اس بات کو قبول کریں گے کہ اس کے نتائج مثبت اور غیر معمولی تھے۔ ان نتائج کا اندازہ آپ فصلوں کی پیداوار، فصلوں کے منافع، ملازمتوں کے مواقع یا کسانوں کے لیے ذریعہ آمدن کی صورت میں لگا سکتے ہیں۔
پھر ریلوے پر غور کرتے ہیں جہاں موازنہ کافی حد تک دلچسپ بن جاتا ہے۔ کراچی سے پشاور، بذریعہ حیدرآباد، سکھر، ملتان، لاہور اور راولپنڈی تک بچھی ریلوے لائن پاکستانی معیشت کی مرکزی شہ رگ تصور کی جا سکتی ہے جو کم لاگت اور کم خرچ میں لوگوں اور مصنوعات کے نقل و حمل کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک بار پھر میں اس بات پر متفق ہوں اور میرا ماننا ہے کہ اس کے نتائج مثبت تھے اور منافع غیر معمولی۔
اب ریلوے میں چند دیگر سرمایہ کاریوں پر غور کریں جن کے نتائج کافی حد تک مختلف انداز میں نمودار ہوئے۔ ان میں سے افغان بارڈر پر پشاور اور لنڈی کوتل کے درمیان ریلوے لائن، کوئٹہ اور چمن کے درمیان لنک جو کہ افغانستان میں قندھار تک پھیلانے کے ارادے کے ساتھ بچھایا گیا تھا، اور سرحد پار بلوچستان میں کوئٹہ سے ایران میں زاہدان تک ریلوے لائن۔
ان تمام کو اپنے دور کی اقتصادی راہداری تصور کی جاسکتا ہے۔ حالانکہ ایسا ارادہ بھلے ہی نہ کیا گیا ہو، مگر پاکستان کی آزادی کے بعد یہ راہداریاں بن سکتی تھیں۔
سرحد پار بلوچستان کی ریلوے لائن 38 اسٹاپس کے ساتھ 455 میل (732 کلومیٹرز) پر محیط ہے جو ہمیں دوست ممالک سے جوڑتی ہے جن سے کافی حد تک تجارت ممکن تھی۔ بلاشبہ علاقائی تعاون برائے ترقی کے تحت یہ لائن ترکی تک پھیلائی جاسکتی تھی اور اس طرح پھر یورپ تک پہنچا جا سکتا تھا جس سے بے تحاشہ اقتصادی استعداد سے بھرپور مواقع حاصل ہوتے۔
مگر آج پشاور-لنڈی کوتل لنک غیر فعال ہے اور کوئٹہ-زاہدان لنک مہینے میں صرف دو بار برائے نام استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی راہداری نے مقامی یا قومی معیشتوں کی سطح پر کسی قسم کے انقلاب پذیر اثرات مرتب نہیں کیے۔
دوسری مثال سڑکوں کی لیتے ہیں۔ برٹش نے گرینڈ ٹرنک روڈ، جو کثیر آبادی والے شہروں کو آپس میں جوڑنے والا ایک قدیم تجارتی راستہ ہے، کا معیار بہتر کیا اور اسے کافی زیادہ وسیع کیا تاکہ بڑے پیمانے پر اور دیرپا فوائد حاصل کیے جائیں، جو کہ محدود اقتصادی اثرات مرتب کرنے والے حالیہ لاہور-پشاور موٹروے کے برعکس ہے۔
اسی طرح حالیہ قراقرم اور تھر-کراچی ہائی ویز سے مقامی معیشتوں پر کسی قسم کے غیر معمولی و انقلابی اثرات مرتب نہیں ہوئے ماسوائے اس کے کہ مقامی مزدور ملازمت کی خاطر اب زیادہ ترقی یافتہ علاقوں تک آسانی سے نقل مکانی کے سکتے ہیں۔
چند ممکنہ نتائج کو شواہد کے ساتھ بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ اقتصادی فائدوں کے مقصد کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاریوں کے لیے لازم ہے کہ وہ روزگار کے مواقع پیدا کر کے اور لوگوں کو آپس میں جوڑ کر اقتصادی ترقی میں نسبتاً قابل قدر حصہ شامل کریں۔ تاریخی شواہد کے مطابق کم آبادیوں والے علاقوں سے گزرنے والی راہداریاں، اپنی سرمایہ کاریوں کے ساتھ ملازمتوں کے بہت ہی تھوڑے مواقع پیدا کرتی ہیں جو کسی انقلابی تبدیلی کا باعث نہیں بنتے۔ اور پسماندہ علاقوں کو پیشگی سرمایہ کاریوں کے بغیر ترقی یافتہ علاقوں سے جوڑنے سے کم ترقی یافتہ علاقوں سے لوگوں اور وسائل کی نقل مکانی میں تیزی واقع ہو سکتی ہے۔
بے شک یہ ممکن ہے کہ چند کم آبادی کے حامل علاقوں، جیسے مکران سے ملحقہ یا شمالی علاقہ جات میں سڑکوں میں سرمایہ کاری سے اقتصادی طور پر منافع ہوگا اگر نتیجے کے طور پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ان علاقوں تک رسائی کی سہولیات فراہم ہو جائیں گی تو پھر ایسی صورت میں سیاحت کے شعبے کو ترقی حاصل ہوگی۔ مگر پاکستان کے سیکیورٹی حالات اور بڑھتے ہوئے سماجی قدامت پسندی کے پیش نظر ایسے امکانات زیادہ نظر نہیں آتے۔
بلاشبہ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ برٹش نے مذکورہ ریلوے راہداریاں معیشت کے لیے نہیں بلکہ فوجی حکمت عملی کے مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائی تھیں اور اسی لیے اس کا سی پیک سے موازنہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ مگر، جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا ہے کہ 1947 کے بعد ریڈی میڈ سرمایہ کاریوں کو اقتصادی مقاصد میں تبدیل کرنے میں کوئی مشکل حائل نہیں تھی۔
افغانستان اور ایران دونوں کے ساتھ غیر معمولی تجارتی استعداد سے بھرپور حالات تھے اور ان دنوں ایران کے ساتھ کافی دوستانہ تعلقات بھی تھے۔ ان راہداریوں کے غیر فعال ہونے سے سنجیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ جہاں سرمایہ کاری پہلے سے کی جا چکی تھی وہاں ان سے استفادہ حاصل کرنے میں آخر کیا مشکلات درپیش تھیں۔
اسی کے ساتھ ایسا بھی کہا جاسکتا ہے کہ سی پیک چین کا بھی اتنا ہی اسٹریٹجک اقدام ہے جو پاکستان کے لیے انقلابی اقتصادی منافع کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پاکستان کو آزادانہ اور معروضی طور پر خود کو ظاہر کرتے رہنا ہوگا۔ تاریخی شواہد خبردار کرتے ہیں کہ محض بڑی بڑی متاثرکن باتیں اور دلائل کافی نہیں ہوتے۔
آپ کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اگر مستقبل میں چین کے ساتھ تعلقات میں تلخی پیدا ہوئی تو سی پیک کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے۔ خیر اس وقت ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا مگر ایران کے ساتھ تعلقات کا تجربہ بھی ایک حقیقت ہے۔ پاکستان کے اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ خراب تعلقات اطمینان بخش فضا قائم نہیں ہو سکتی بلکہ مزید حالات بدتر ہو سکتے ہیں۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا جیسے پسماندہ صوبوں میں ترقی کو فروغ دینا ہی اگر قومی مقصد ہے تو علاقائی معیشتوں کی سطح پر روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے تناظر میں سوچنا بہتر رہے گا بالکل ویسے ہی جیسے 20 ویں صدی میں نہری نظام سے پنجاب میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔
اقتصادی راہداریوں کے لیے شاید یہی چیز زیادہ معنی خیز اور قابل عمل ہے کہ سرمایہ کاری کے اس ماڈل کو نظرانداز کرنے کے بجائے اسی کی پیروی کی جائے۔
انگلش میں پڑھیں
یہ مضمون ڈان اخبار میں 20 دسمبر 2016 کو شائع ہوا۔