پارلیمانی رہنماؤں کے نام پر جعلی بینک اکاؤنٹس کی موجودگی؟
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق، سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے نام پر جعلی بینک اکاؤنٹس کھلوائے گئے ہیں اور ان کے ذریعے کروڑوں روپے رقم کی منتقلی بھی کی گئی ہے۔
ان کے علاوہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کے نام پر بھی جعلی بینک اکاؤنٹس موجود ہیں۔
قومی اسمبلی کے سیکریٹری کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ان کے نام پر قائم ایک جعلی بینک اکاؤنٹ کی رسید دیکھنے کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک اور وفاقی تحقیقات ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسیپکر کا کہنا تھا کہ جعلی بینک رسید پر جس شہر کی نشاندہی کی گئی ہے ان کا نہ تو اس بینک اور نہ ہی اس شہر میں کوئی اکاؤنٹ موجود ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 'اسٹیٹ بینک کو اس مسئلے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا ہے اور اسپیکر نے واضح کیا کہ ان کا مذکورہ بینک اکاؤنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے'۔
ادھر چیئرمین رضا ربانی نے سینیٹ کو بتایا کہ انھیں کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر ایس ایم بی بینک کی رسید وصول ہوئی، جس کے مطابق اس بینک میں موجود ان کے اکاؤنٹ میں 10 کروڑ روپے منتقل کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے جواب میں انھوں نے بینک کے صدر کو بھیجی گئی تحریر میں نشاندہی کی کہ انھوں نے اس بینک میں کبھی بھی کوئی اکاؤنٹ نہیں کھلوایا تو رقم کی منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
انھوں نے کہا کہ ان کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا کہ ان کے نام پر فراڈ کیا گیا اور اس حوالے سے تحقیقات کی جانی چاہیے، ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے اس حوالے سے ایف آئی اے کے ڈی جی کو بھی خط تحریر کیا ہے اور ہاؤس کو اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی جانب سے ایک علیحدہ جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے قومی اسمبلی کے پتے پر ایک بینک کی ٹی ڈی آر رپورٹ موصول ہوئی ہے، جس کے مطابق کراچی میں قائم ایس ایم ای بینک میں موجود ان کے اکاؤنٹ میں 10 کروڑ روپے کی رقم منتقل کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 'اپوزیشن لیڈر کا مذکورہ بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے تو یہ رپورٹ کیسے ترتیب دی گئی؟ جب انھوں نے ٹی ڈی آر رپورٹ کے حوالے سے بینک کے حکام سے رابطہ کیا تو ان کو بتایا گیا کہ ایسی ہی متعدد شکایات دیگر افراد کی جانب سے بھی درج کرائی گئیں ہیں'۔
خورشید شاہ نے دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ایف آئی اے کی ڈی جی کو مطلع کردیا گیا ہے تاکہ آئندہ کوئی شخص سیاسی رہنماؤں کی ساکھ کو خراب نہ کرسکے۔
خیال رہے کہ یہ بات تاحال پوشیدہ ہے کہ رقم کی ان جعلی منتقلیوں کے پیچھے کون ہے یا پارلیمانی اراکین کے نام پر جعلی اکاؤنٹس بنا کر ان میں اس قدر بڑی رقم کی منتقلی کے پیچھے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے ڈان کو بتایا کہ انھیں پارلیمنٹ سے جعلی بینک اکاؤنٹس کی معلومات موصول ہوئی ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ مرکزی بینک اس بات کی تحقیقات کررہا ہے کہ یہ اکاؤنٹ کیسے کھولے گئے ہیں۔