نقطہ نظر

تہاڈا کتا کتا، ساڈا کتا ٹومی

بات تو چوہدری صاحب کی بالکل ٹھیک ہے کہ جو کام ماضی سےچلتا آرہا ہے، وہ میں نے بھی کر دیا تو اس میں کیا غلط بات ہے؟

پچھلے دنوں مجھے اسلام آباد کی ایک مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جماعت سے فارغ ہو کر مولانا صاحب نے دعا کا آغاز کیا۔ دعا کیا تھی، درحقیقت ایک خطاب تھا جس میں مولانا صاحب حکومت پر بہت برہم نظر آرہے تھے۔ انہی دنوں حکومت نے قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک بلاک کا نام ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھنے کی سمری منظور کی تھی۔

حکومت کے اس اقدام پر مولانا صاحب لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ حکومتی اقدام کفر کے مترادف ہے اور لوگوں کو اس پر احتجاج کرنا چاہیے۔

میرے لیے یہ بہت حیران کن تھا کیوں کہ یہ مسجد حکومتی ایوانوں سے اتنی قریب ہے کہ اس کے لاؤڈ اسپیکر کی آواز چوہدری نثار صاحب کے آفس تک صاف پہنچ سکتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا صاحب باقاعدہ گریڈ 16 کے حکومتی امام ہیں جن کو سرکاری گھر تک الاٹ کیا گیا ہے۔

پڑھیے: ’ہرچیز کو مولانا لدھیانوی سے جوڑنا کہاں کا انصاف؟‘

یہ واقعہ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پچھلے چند دنوں سے چوہدری نثار کی کالعدم تنظیموں سے ملاقاتیں اور ان کے بیانات میڈیا اور سیاسی حلقوں میں کافی شور برپا کر رہے ہیں۔

نہ جانے معزز وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب سے لوگوں کو تکلیف کیا ہے ایک لمبے عرصے بعد بھی ان کا لب کشائی کرنا لوگوں کو ناگوار گزرتا ہے۔

وزیر داخلہ صاحب ان دنوں میڈیا اور خاص طور پر پیپلز پارٹی کے زیر عتاب ہیں۔ یہ ہنگامہ تب کھڑا ہوا جب انہوں نے اسلام آباد میں مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں فورتھ شیڈول میں شامل لوگوں سے ملاقات کی جن میں قابلِ ذکر نام (کالعدم) اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کا ہے۔

اس کا جواب دینے کے لیے چوہدری صاحب نے ایک پریس کانفرنس کی اور لوگوں کو یقین دلایا کہ مجھے لدھیانوی صاحب کی آمد کا علم نہیں تھا۔ اب اگر وہ آبھی گئے تھے تو کیا میں ان کو واپس بھیج دیتا؟

واقعی وزیر داخلہ صاحب صرف نام کے ہی چوہدری نہیں، بلکہ چوہدراہٹ ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کوئی مہمان آپ کے گھر آ جائے تو اسے واپس بھیجنا اصول میزبانی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ چوہدری صاحب کا جواز تو بہت تگڑا تھا، مگر اس پر بھی اپوزیشن جماعتیں خاص طور پر پیپلز پارٹی کی تشفی نہیں ہوئی، تو چوہدری صاحب نے ایک اور جواز پیش کیا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کے اراکین بھی تو کالعدم تنظیموں اور مولانا احمد لدھیانوی صاحب سے ملتے رہے ہیں، میں نے کیا غلط کیا ہے؟

بات تو چوہدری صاحب کی بالکل ٹھیک ہے کہ جو کام ماضی سے چلتا آرہا ہے، وہ میں نے بھی کر دیا تو اس میں کیا غلط بات ہے؟ اس پر مجھے ایک پنجابی فلم کا ڈائیلاگ یاد آرہا ہے کہ 'تہاڈا کتا کتا، تے ساڈا کتا ٹومی'۔ شاید چوہدری صاحب کم و بیش یہی کہنا چاہ رہے تھے۔

پڑھیے: ’فرقہ وارانہ اور دہشت گرد تنظیموں میں تفریق نہیں‘

پچھلے دنوں سینیٹ میں چوہدری صاحب نے پھر بیان دیا کہ کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں اور دہشت گرد تنظیموں میں فرق کیا جانا چاہیے، جس پر ایک مرتبہ پھر شور شرابا شروع ہو گیا۔ جواب میں چوہدری صاحب کو پھر وہی ہتھیار استعمال کرنا پڑا کہ ایسے معاملات تو ماضی سے چلتے آئے ہیں، اور یہ فرقہ وارانہ تشدد تو پچھلے 1300 سال سے جاری ہے۔

وزیرِ داخلہ صاحب کے کہنے کا مطلب ہے کہ جو معاملات ماضی سے چلے آرہے ہوں ان پر اگر آج بھی قائم رہا جائے تو اس میں کچھ غلط نہیں۔ چوہدری صاحب مزید فرماتے ہیں کہ ہر چیز کو مولانا لدھیانوی سے جوڑنا کہاں کا انصاف ہے؟ ساتھ ہی چوہدری صاحب نے اپنے بیان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ تنظیمیں مکمل دہشت گرد ہوتی ہیں اور کچھ صرف فرقہ وارانہ فسادات کی حد تک محدود ہوتی ہیں۔ گویا چوہدری صاحب ہمیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چھوٹے چور اور بڑے چور میں فرق کرنا چاہیے۔

کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوں یا 1300 سال سے چلے آ رہے فرقہ وارانہ فسادات، جب سب کچھ ماضی سے چلا آرہا ہے تو اس میں چوہدری صاحب قصور وار کیسے؟ پتہ نہیں پیپلز پارٹی اور میڈیا کو ان سے تکلیف کیا ہے؟

وزیر داخلہ صاحب بار بار اپنے بیانات کو اس بات سے تقویت دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ماضی میں کالعدم تنظیموں سے ملاقاتیں کی ہیں تو میری ملاقات پر بھی اتنا شور نہیں ہونا چاہیے۔

چوہدری صاحب ہماری آپ سے گذارش ہے کہ اگر آپ ماضی میں ہونے والے ہر غلط کام کو ایک مثال بنا کر وہی کام خود کریں گے تو آپ پر لوگ انگلیاں اٹھائیں گے۔ اگر آپ کی پریس کانفرنس کے دوران کوئی صحافی آپ سے سوال کر لے کہ فلاں صاحب فورتھ شیڈول میں کیوں ہیں تو کیا آپ اسے یہ جواز پیش کریں گے کہ چوں کہ وہ ماضی سے فورتھ شیڈول میں چلا آرہا ہے تو اس لیے آج بھی فورتھ شیڈول میں ہے۔

ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے جب چوہدری صاحب سے سلمان حیدر اور دیگر لاپتہ افراد کے بارے میں سوال کیا تو ان کے ماضی کے بیانات کو دیکھتے ہوئے غالب امکان یہی تھا کہ وہ میڈیا پر برس پڑیں گے اور فرمائیں گے کہ یہ کام تو ماضی سے چلا آرہا ہے، آج اگر سلمان حیدر صاحب لاپتہ ہو گئے ہیں تو اس پر اتنا شور کیوں کیا جا رہا ہے؟

پڑھیے: چوہدری نثار کے خلاف چارج شیٹ

جناب والا آپ سے سرزد ہونے والی ہر غلطی کو ماضی میں ہونے والی غلطی سے منسوب کر کے ٹھیک سمجھنا ہے تو پھر آپ کا کردار تو نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے، کیوں کہ فرقہ وارانہ فسادات تو برسوں سے چلے آرہے ہیں اور قتل و غارت کی تاریخ بھی تاریخ انسانی کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے، اور اگر انہیں ایسے ہی چلنے دینا ہے تو پھر داخلی سلامتی کے لیے آپ کی ضرورت کیا ہے؟

اگر آپ کے وزیرِ اعظم صاحب داڑھی والے اور بغیر داڑھی والے، پگڑی اور بغیر پگڑی والے کو ایک ہی صف میں کھڑے کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو اس کو پورا کرنے کی بنیادی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے، کیوں کہ آج مسجد کے منبر سے اٹھنے والی ایسی آوازیں، جن کی میں نے شروع میں مثال دی ہے ،مذہبی منافرت کو ہوا دیتی ہیں تو کل یہ انتہا پسندی اور پھر دہشت گردی کا ایک تناور درخت بھی بن سکتی ہیں۔

وقاص علی

وقاص علی چوہدری ڈان نیوز اسلام آباد میں کرنٹ افیئرز پروڈیوسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔