جس پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ ٹیکس فارم میں ترمیم 2015 میں ہوئی تھی، پاناما اسکینڈل کب سامنے آیا؟
مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ پاناما کا معاملہ اپریل 2016 میں سامنے آیا ہے اور فارم میں ترمیم اس سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔
مخدوم علی خان نے عدالت کو مزید بتایا کہ نواز شریف نے 2011 میں مریم نواز کے نام پر زمین خریدی تھی جس پر جسٹس گلزار نے ان سے دریافت کیا کہ یہ جائیداد کہیں بے نامی تو نہیں تھی؟
مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ زیر کفالت ہونے کے معاملے پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد بھی عدالت کی معاونت کریں گے جس ہر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ایک معاملے پر دو دو وکلاء کو کیسے سنا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شادی کے بعد والد کی زیرکفالت نہیں: مریم نواز
یاد رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں مریم نواز کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں والد نواز شریف کی زیر کفالت ہونے کی نفی کردی گئی تھی۔
مریم نواز کے وکیل کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی اضافی دستاویزات میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 1992 میں شادی کے بعد سے مریم نواز اپنے والد نواز شریف کی زیر کفالت نہیں رہیں بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔
گذشتہ روز کی سماعت میں عدالت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم یا ارکانِ پارلیمنٹ کو حاصل استثنیٰ حتمی نہیں اور آئین و قانون کی پاسداری ہر شہری کا فرض ہے۔
پاناما کیس کی درخواستوں کی سماعت کرنے والے لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جرم کا ارتکاب کرنا اور پھر بھی پارلیمانی اسثنیٰ کے مطالبے کو حکومتی عہدیداران کو ان کی ذمہ داریوں پر حاصل استثنیٰ میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔
وزیراعظم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ پارلیمنٹ کا فلور ایسا جزیرہ ہے جہاں ہر قسم کا استثنیٰ حاصل ہے۔
جس کے جواب میں مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ کا مطالبہ نہیں کررہے۔
وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے ان دلائل کے ساتھ کیس کی سماعت کو کل (19 جنوری) کی صبح 9.30 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
’آج عدالت میں معجزہ ہوگیا‘
سماعت کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا تھا کہ سیلز ڈیل فروری میں ہوتی ہے اسٹیمپ پیپر مارچ میں سامنے آتا ہے، ایسا صرف جادو ہی ہوسکتا ہے اور آج عدالت میں معجزہ ہوگیا۔
ان کا مزہد کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں شریف خاندان کی تلاشی ہونا پاکستان کی جیت ہے، اسحاق ڈار کا اعترافی بیان، 1998 میں سامنے آنے والی ایف آئی اے کی رپورٹ، 1998 میں بنی بی بی سی کی ڈاکیومینٹری اور برطانوی اخبار انڈیپنڈینٹ کا آرٹیکل سب ان کی منی لانڈرنگ کو ثابت کرتے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ پاناما کیس پاکستان کے کیس کا فیصلہ کرے گا۔
’عوام جانتی ہے سچ کیا ہے جھوٹ کیا‘
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان کی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اس پر صرف عدالت کی مہر لگنا باقی ہے، عوام سچ اور جھوٹ جانتی ہے۔
وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اداروں پر دباؤ ڈالنے اور کنٹینر پر مقدمے کرنے کی عادت ہے۔
طلال چوہدری کا الزام لگانا تھا کہ عمران خان سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کے نام پر سیاسی جوا کھیلنے آئے ہیں، وہ جو میچ ووٹ سے نہیں جیت سکے وہ جھوٹ سے جیتنا چاہتے ہیں۔
طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ شریف فیملی کا حوصلہ ہے کہ تین نسلیں اپنا حساب دے رہی ہیں۔
وزیراعظم کی نااہلی: جماعت اسلامی کی درخواست منظور
دوسری جانب وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق جماعت اسلامی کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا، درخواست کی سماعت جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کرے گا۔
پاناما کیس کی سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف سے استفسار کیا کہ کیا وہ درخواست پر بحث کے لیے تیار ہیں، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ وہ بالکل تیار ہیں۔
جس کے بعد عدالت کی جانب سے فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے گئے۔
واضح رہے کہ پیر(16 جنوری) کو جماعت اسلامی نے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے درخواست دائر کی تھی، جس میں وزیراعظم سمیت وفاق، کابینہ ڈویژن اور اسپیکر قومی اسمبلی کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیراعظم نے غیر قانونی طریقے سے رقوم ملک سے باہر بھیجیں اور اسی باعث ان کے خاندان کا نام پاناما لیکس میں آیا۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ رقوم غیر قانونی طور پر منتقل کرکے بیرون ملک جائیدادیں اور آف شور کمپنیاں بنائیں گئی، لندن میں فلیٹ خریدے گئے اور پاکستان میں اس کا ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔
لہذا وزیراعظم اپنے ان اقدامات اور بیانات میں تضاد کی وجہ سے صادق اور امین نہیں رہے، انہیں نااہل قرار دیا جائے۔
یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔
لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔