'پاکستان اسٹیل ملز کو 30 سالہ لیز پر دینے کی منظوری'
اسلام آباد: ملک کے سب سے بڑے صنعتی ادارے پاکستان اسٹیل ملز کو 30 سال کے لیے لیز پر دینے کی منظوری دے دی گئی۔
چیئرمین محمد زبیر کی سربراہی میں ہونے والے نجکاری کمیشن بورڈ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے اثاثے فروخت نہیں کیے جائیں گے تاہم ادارے کو 30 سال کے لیے نجی سرمایہ کار کے حوالے کردیا جائے گا۔
5 گھنٹے جاری رہنے والے نجکاری کمیشن بورڈ کے طویل اجلاس میں اسٹیل ملز کے مستقبل کا فیصلہ سامنے آیا، اجلاس کے سامنے پیش کیے گئے آپشنز کے مطابق یا تو پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری یا پھر اسے 45 سال کے لیے لیز پر دینے کے معاملات زیر غور آئے۔
تاہم طویل بحث کے بعد لیز کا دورانیہ کم کرکے 30 سال کرکے اسٹیل ملز کو لیز پر دینے کی رضامندی ظاہر کردی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اسٹیل ملز کو 45 سال کیلئے لیز پر دینے کی تیاری
نجکاری کمیشن بورڈ کے مطابق خسارے کا شکار پاکستان اسٹیل ملز کے تمام واجبات اور بقایاجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی اور نئے سرمایہ کار کو کلین بیلنس شیٹ دی جائے گی۔
اس کے علاوہ پاکستان اسٹیل ملز کے نئے سرمایہ کار کے لیے 5 سال انکم ٹیکس ہالیڈے کی تجویز کو بھی منظور کرلیا گیا۔
علاوہ ازیں لیز حاصل کرنے والے سرمایہ کار کو پلانٹ اور مشینری امپورٹ کرنے کے لیے ڈیوٹی بھی ادا نہیں کرنی پڑے گی۔
لیز پر جاری کرنے کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کے کسی بھی فیصلے میں تین فریق شریک ہوں گے جس میں حکومت پاکستان، پاکستان اسٹیل ملز اور سرمایہ کار شامل ہیں اور اسٹیل ملز کو ریوینیو شیئرنگ کی بنیاد پر لیز پر دیا جائے گا۔
پاکستان اسٹیل ملز کی زمین حکومت پاکستان کی ہی ملکیت رہے گی جبکہ پلانٹ اور مشینری نئی کمپنی کو 30 سالہ مدت کے لیے لیز پر دیے جائیں گے۔
نجکاری کمیشن بورڈ کی اس منظوری کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کا معاملہ کابینہ کمیٹی برائے نجکاری میں جائے گا جہاں اس کی حتمی منظوری دی جائے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز ظفر سبحانی کی سربراہی میں ہونے والے ٹرانسیکشن کمیٹی کے اجلاس میں مشاورت کے دوران اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ لیز کے معاہدے کے تحت نئی کمنپی کو پہلے سال میں پلانٹ کی استعداد کے مطابق 25 فیصد کام کو دوبارہ شروع کرنا ہوگا، لیز کے دوسرے سال 50 فیصد اور اس کے بعد پیداوار کو 85 تک لے جانا ہوگا۔
مزید پڑھیں: اسٹیل ملز کو لیز پر دینے کیلئے سفارشات کی تیاری
وزارتِ صنعت کے سیکریٹری کی جانب سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق اسٹیل ملز کی موجودہ صورتحال کی وجہ بدعنوانی، گنجائش سے زیادہ ملازمین کی بھرتی، عدم استعداد اور ادارے کی بحالی میں حکومتی عدم دلچسپی کو قرار دیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کے ذرائع کے مطابق ٹرانسیکشن کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی تھی اسٹیل ملز کے موجودہ اسٹاف کی تعداد 19 ہزار 700 کے قریب ہے جس میں سے حکومت 4 ہزار 835 ملازمین کو رضاکارانہ علیحدگی اسکیم کے ذریعے کمپنی سے نکالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یاد رہے کہ کچھ ہفتے قبل وزارت صنعت و پیداوار نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ملازمین کو تنخواہیں نہ دینے کی وجہ سے مل کے ملازمین شدید مشکلات کا دوچار ہیں، 2 سال سے زائد عرصے سے ملازمین کی تنخواہیں وفاقی بجٹ سے دی جارہی ہیں اور اب بھی اکتوبر 2016 سے ان کی تنخواہیں دینا باقی ہیں جبکہ گذشتہ 3 سال سے پاکستان اسٹیل ملز کا آڈٹ بھی نہیں ہوسکا ہے۔