نقطہ نظر

نادر 'نادرا' کو ناچیز کا مشورہ

کبھی نادرا کا کوئی مرکز نظر آئے تو ذرا رک کر ایک نظر دیکھیے، ہجوم ایسا ہوگا کہ آپ کو گمان گزرے گویا یوم حشر ہے۔

کوئی بچہ پیدا ہو تو اسے بحیثیت فرد اپنی شناخت درکار ہوتی ہے۔ ماں باپ اپنا نام اسے دے کر یہ شناخت عطا کرتے ہیں۔ ریاست بھی چونکہ ماں ہوتی ہے لہٰذا اسی طرز پر دنیا بھر میں دھرتی ماں سے اپنی نسبت کا اظہار، ریاست کی طرف سے جاری کردہ کسی شناختی دستاویز سے ہوتا ہے۔

وطن عزیز میں یہ کام نادرا کے حوالے ہے جو اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن کام کرنے کی سعی کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود عوام کی طرف سے بد نظمی کی شکایات کا ایک انبار ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ نادرا کے کسی بھی مرکز پر چلے جائیے بلا تفریق مرد و زن، پیر و جواں، صحت مند و ناتواں، نادارو بے اماں عوام کا ایک جم غفیر اپنے روز مرہ کے کاموں کا حرج کر کے طویل قطاروں میں لگا ہوا نظر آئے گا۔

میں انہیں نادار اس لیے سمجھتا ہوں کہ اگر یہ با وسائل ہوتے تو انہیں قطاروں میں نہ لگنا پڑتا، ان کے شناختی کارڈز خود چل کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔ کبھی آتے جاتے صبح کے اوقات میں نادرا کا کوئی مرکز نظر آئے تو ذرا رک کر ایک نظر دیکھیے، ہجوم ایسا ہوگا کہ آپ کو گمان گزرے گویا یوم حشر ہے۔ برسبیل تذکرہ، متقدمین سے متوسطین اور پھر متاخرین تک اردو شعراء بھری دنیا میں اپنی تنہائی کا دکھ تواترسےنظم کرتے آئے ہیں۔ مثلاً حضرت صبا افغانی کا شعر:

دنیا کے جھمیلے میں رنگا رنگ کے میلے ہیں

بھیڑ ہے قیامت کی اور ہم اکیلے ہیں

خدا جھوٹ نہ بلوائے نیو کراچی کے ٹاؤن آفس میں واقع نادرا دفتر کا دورہ صبح کے اوقات میں کسی وقت کر لیجیے آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ قیامت کی بھیڑ کسے کہتے ہیں۔

پڑھیے: شناختی کارڈ کے لیے برقعے کی 'مجبوری'

یہی حال نارتھ ناظم آباد کے اسمارٹ ایگزیکٹو سینٹر کا ہے۔ آپ کو کئی لوگ ناشتے کا ٹفن ہاتھوں میں لیے نظر آئیں گے تو کئی بد قسمت نہار منہ قطار میں لگے ملیں گے۔

ریاست اگر اپنی اولاد کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی تو انہیں عزت ہی دے دے۔ عزت تو ان کا حق ہے۔ کیا پاکستانی ہونا ایسا جرم ہے جس کی تلافی کرنے کے لیے گھنٹوں قطاروں میں لگنا پڑے؟ اپنی شناخت ہر شہری کا حق ہے جو اسے قطاروں میں لگ کر نہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں گھر بیٹھے ملنی چاہیے۔

نارتھ ناظم آباد اور فیڈرل بی ایریا جیسے متوسط ٹاؤنز کا یہ حال ہے تو ذرا چشم تصور سے دیکھیے کہ دیہی یا مضافاتی علاقوں کے عوام نادرا کی مقرر کردہ فیس ادا کرنے کے باوجود کس قدر ذلت برداشت کرتے ہوں گے۔ نادرا جس ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر رہی ہے اس کا تجزیہ کریں تو آپ اسے دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

1۔ ٹوکن حاصل کر کے تصویر بنوانا اور ڈیٹا انٹری کروانا

2۔ اپنے فارم کا پرنٹ لے کر اس کی تصدیق اور جمع کروانا

جن لوگوں کو اس قطار میں لگنے کا تجربہ ہے وہ اتفاق کریں گے کہ بنیادی طور پر مرحلہ نمبر ایک ہی زیادہ وقت لیتا ہے۔ اس تحریر کی وساطت سے بذریعہ سطور ہذا چند تجاویز نادرا حکام کو پیشِ خدمت ہیں۔ مناسب لگیں تو کچھ بہتری کی سبیل کر کے عند اللہ ماجور ہوں۔

پڑھیے: نادرا کے نادر لوگوں سے مؤدبانہ سوالات

1۔ پاکستان ریلویز کا کارگو سیکشن، پاکستان پوسٹ اور قومی بچت کے مراکز وہ ادارے ہیں جن سے متعلقہ کاروبار روڈ ٹرانسپورٹرز، نجی کورئیر کمپنیز اور مختلف نجی بینک بہت صفائی کے ساتھ بغیر ڈکار لیے ہڑپ کر چکے ہیں۔ اب ان کا زیادہ تر عملہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے آپ کو مولانا حالی کے اس شعر کی عملی تفسیر نظرآتا ہے:

حالی اب گئے غزل خوانی کے دن

راگنی بے وقت کی گاتے ہو کیا

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ حکومت اپنے ان چہیتے اداروں کو نادرا ای سہولت شاپ کی طرز پر نادرا کے ڈیٹا تک رسائی دے دے۔ یہ لوگ ڈیٹا انٹری کر کے پرنٹ آؤٹ درخواست دہندہ کےحوالے کریں۔ یقین مانیے لمبی لمبی قطاروں میں لگنے کی کوفت ختم نہیں تو کافی حد تک کم ضرور ہو جائے گی۔

پڑھیے: بلاک شناختی کارڈ کھلوانے کا اذیت ناک تجربہ

2۔ فارم کی تصدیق اور جمع کروانے کا عمل صرف نادرا کے اپنے مراکز پر ہو۔ ہینگ لگے گی نا پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے گا۔ فارم تصدیق کے ضمن میں ایک قابل تحسین عمل نادرا نے حال ہی میں شروع کیا ہے جس کی تعریف ہونی چاہیے۔ درخواست دہندہ کے فارم کی تصدیق کے لیے اب اہل خانہ میں سے کسی کو بلایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے یہ کام کسی بھی گزیٹڈ افسر سے کروایا جا سکتا تھا۔

اس سے بد عنوان اہلکاروں کو موقع مل جاتا تھا کہ کسی غیر ملکی کا فارم کسی گزیٹڈ افسر سے تصدیق کروا کے غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ جاری کردیے جاتے تھے۔ اہل خانہ سے تصدیق کروانا بہت احسن عمل ہے۔ کوئی بھی ذی شعور اور محب وطن شخص یقیناً کسی اجنبی کو اپنے فیملی ٹری میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ بعض لوگوں کو یہ مشکل لگتا ہے لیکن بہرحال اس سے بد عنوانی کا مناسب سدباب ہوگا۔

3 – نادرا نے ویب سائٹ کے ذریعے اندرون و بیرون ملک سے درخواستیں وصول کرنے کا نظام شروع کیا ہے۔ اسے عوام میں کچھ پذیرائی تو مل رہی ہے لیکن لوگوں کو شکایت ہے کہ دس پندرہ روز کا وعدہ کر کے کئی کئی مہینے شناختی دستاویز فراہم نہیں کیے جاتے۔

پڑھیے: شناختی کارڈ کی تجدید کا اشتعال انگیز سوالنامہ

بنیادی طور پر یہ پروجیکٹ سمندر پار پاکستانیوں کو اسمارٹ کارڈ، نائیکوپ، ایف آر سی و دیگر شناختی دستاویز جاری کرنے کے لیے شروع ہوا تھا اور اس کے لیے فیس غیر ملکی کرنسی میں یا متبادل ایکسچینج ریٹ سے چارج کی جاتی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ سمندر پار پاکستانی 5 سے 6 گنا مہنگی فیس وطن عزیز کی معیشت میں اپنا حصہ سمجھ کر بخوشی ادا کرتے ہیں۔ اگر آئی ٹی اسٹاف اپنی روش میں تبدیلی لے آئے اور عزم کر لے کہ وہ قومی شناخت فراہم کرنے کا فریضہ جہاد سمجھ کر ادا کرے گا تو نہ صرف یہ ویب سائٹ نادرا کا کماؤ پوت ثابت ہوسکتی ہے بلکہ دیار غیر میں آغوش مادر کی نرمی و گرمی کو ترسنے والوں کے لیے ریاست سوتیلی کے بجائے سگی ماں محسوس ہونے لگے گی۔ آزمائش شرط ہے۔

وسیم رضا

رضا وسیم سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ اور ایف سی کالج یونیورسٹی کے ساتھ بطور مترجم، لسانیات دان اور مصنف کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔