پاکستان

شادی کے بعد والد کی زیرکفالت نہیں: مریم نواز

پاناما لیکس کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کی صاحبزادی نے سپریم کورٹ میں اضافی دستاویزات جمع کرادیں۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے جمع کرائے گئے جواب میں والد نواز شریف کی زیر کفالت ہونے کی نفی کردی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو مریم نواز کے وکیل نے سپریم کورٹ میں اضافی دستاویزات جمع کرائیں۔

دستاویزات میں مریم نواز نے موقف اختیار کیا کہ 1992 میں شادی کے بعد وہ اپنے والد نواز شریف کی زیر کفالت نہیں رہیں بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔

مریم نواز نے گزشتہ 5 سال کے زرعی اور غیر زرعی آمدنی کے ٹیکس کا بھی حوالہ دیا اور بتایا کہ شمیم زرعی فارم کے مکان میں مشترکہ طور پر اخراجات ادا کیے جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ رائے ونڈ اسٹیٹ میں 5 گھر ہیں،جو تمام ان کی دادی کے نام پر ہیں، جبکہ ایک گھر شہباز شریف کے زیر استعمال ہے۔

دستاویزات کے مطابق 2013 میں ان کی دادی شمیم اختر کے ٹیکس میں ان کا حصہ 50 لاکھ روپے تھا، 2014 کے ٹیکس میں ان کا حصہ 60 لاکھ روپے تھا، جبکہ 2015 کے ٹیکس میں ان کا حصہ 60 لاکھ روپے تھا۔

مریم نواز کی جانب سے جمع کرائی گئیں ٹیکس تفصیلات کے مطابق:

وزیراعظم کے وکیل کے دلائل

سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے آج بھی دلائل جاری رکھے اور وزیراعظم کے استثنیٰ پر بات کی۔

مخدوم علی خان کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ صدر، وزیراعظم اور گورنرز کو آئینی استثنی حاصل ہے تاہم اسمبلی میں ججز کے کنڈکٹ کے بات ہو تو انھیں پارلیمانی استثنی حاصل نہیں ہو گا، کیونکہ آئین کے آرٹیکل 68 اور 204 ججز کنڈکٹ پر بات کرنے سے روکتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرٹیکل 19 کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔

جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ آپ کا کیس آرٹیکل 19 کے زمرے میں نہیں آتا، یہ آرٹیکل اظہار رائے کا حق دیتا ہے جبکہ آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔

جسٹس کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز آپ نے پارلیمانی کارروائی عدالت میں چیلنج نہ ہوسکنے کا ذکر کیا تھا، جبکہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کو ارکان کے خلاف بطور ثبوت استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ آئین کے آرٹیکل 68 کے تحت ججز کا کنڈکٹ بھی پارلمنٹ میں زیر بحث نہیں آتا۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز یعنی 16 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ آرٹیکل 66 کے تحت اسمبلی کی کارروائی کو عدالت میں نہیں لایا جاسکتا اور وزیراعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کے مطابق ہی لیا جا سکتا ہے ۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم کے بیان میں کوئی تضاد اور غلط بیانی موجود نہیں جبکہ جہاں ریکارڈ متنازع ہو وہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی۔

مزید پڑھیں:پاناماکیس:’دہری شہریت اورصادق، امین کی بنیاد پرنااہلی میں فرق‘

آج کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ایسے عدالتی حوالے موجود ہیں جس کے تحت عدالت پارلیمانی کارروائی کا جائزہ لے سکتی ہے۔

جس پر مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ تقریر کو بطور شہادت پیش نہیں کیا جا سکتا اور تقریر کو بطور شہادت پیش نہ کرنے کے عدالتی فیصلوں کے حوالے موجود ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر وزیراعظم پارلیمنٹ سے باہر تقریر کریں تو آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ مانگیں گے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے موکل پر الزام ہے کہ آپ کی تقریر حقائق کے مطابق نہیں جبکہ دوسرا الزام یہ ہے کہ تقریر اور دستاویزات کے موقف میں بھی تضاد ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ والد اور بچوں کے بیانات میں بھی فرق ہے۔

جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ وزیراعظم کے قوم سے خطاب پر آرٹیکل 66 کااطلاق نہیں ہوتا، اگر عدالت آرٹیکل 66 کے تحت جائزہ نہ لے تو کوئی تضاد نہیں۔

دوران سماعت وزیراعظم کے وکیل نے ان کی تقریر کا اقتباس پڑھ کر سنایا، جس میں ان کے بچوں کے بیرون ملک کاروبار کی تفصیل بتائی گئی۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اس تقریر میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جاسکے، وزیراعظم کی تقریر یا ان کے بچوں کے بیان میں اگر کوئی تضاد ہے بھی تو تب بھی وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس:'نااہلی کیلئے سزا یافتہ ہونا ضروری'

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے ان کے صادق، امین اور راست گو ہونے کا تعین ہونا چاہیئے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 66 صرف پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر پر استثنیٰ دینے سے متلعق ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ صرف پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ قوم سے کیے گئے خطاب کا بھی سوال ہے۔

جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پارلیمانی تقاریر کو اس حد تک استثنیٰ حاصل ہے کہ کئی مواقع پر عدالت نے قانون کی تشریح کے لیے بھی تقاریر کا جائزہ نہیں لیا۔

جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی تقریر کا بطور شواہد جائزہ لیا جاسکتا ہے، پارلیمنٹ قانون بناتی ہے اور عدالت اس کی تشریح کرتی ہے، اگر تشریح کی غرض سے تقریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ خلاف ورزی نہیں ہوگی۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس کا بار ثبوت اب وزیراعظم کے وکلاء پر: سپریم کورٹ

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ جب ہم کسی قانون کی تشریح کرتے ہیں تو اراکین پارلیمنٹ کی تقاریر ہمارے سامنے رکھی جاتی ہیں۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے وزیراعظم کا نہیں کسی رکن قومی اسمبلی کے نااہل ہونے کا سوال ہے اور اس مقصد کے لیے عدالت کو قانون کا سہارا لینا ہوگا۔

بعدازاں کیس کی سماعت کل بروز بدھ (18 جنوری) تک کے لیے ملتوی کردی گئی، جہاں مخدوم علی خان اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔

لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔