دبئی چلو: پاکستان سے ہجرت انتخاب یا مجبوری
ایک زمانہ تھا جب "چلو چلو دبئی چلو!" کے نعرے نے بڑی مقبولیت پائی۔ جسے دیکھو بقچہ اٹھائے، ملک خداداد سے نالاں، قسمت سنوارنے ، زندگی بنانے دبئی، متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب کا رخ کرتا تھا۔
وقت کا پہیہ گھوما ،زمانے نے کروٹ لی، انسانی تخیل کی پرواز نے لمبی اڑان بھری اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ، عرفِ عام میں 'ولایت' کا رخ کرنے لگی۔
بچپن میں ایک سہیلی تھی، تین بہنوں میں سب سے چھوٹی۔ من موہنی صورت والی۔ اس کے ابا پڑھنے ولایت گئے اور ایسے گئے کہ کبھی واپس نہ پلٹے۔ پر اب تو معاملہ ہی دوسرا ہے۔ ہجرت شوق نہیں مجبوری بن گئی ہے۔ گو دیس کے مقابلے میں پردیس میں زندگی خار زار ہے، نہ نوکریاں آسانیاں سے ملتی ہیں، نہ گھر پر نوکر چاکر کا سکھ نصیب ہوتا ہے، کیسے کیسے وہاں جا کر ایسے ویسے بن جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ نئے سرے سے نئے ملک کے رواج کے مطابق تعلیم حاصل کرنا اور ہنر سیکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔
پڑھیے: کیا بنگلہ دیشی پاکستانیوں سے آگے نکل گئے ہیں؟
ان ترقی یافتہ ممالک میں رنگ و نسل اور عمر و ہنر کے حساب سے مقابلہ ہمہ و قت سخت اور وقت کم رہتا ہے۔ یہی معاملہ بینکار رضا اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ہوا، جو ایک پرتعیش زندگی گزارنے کے باوجود پاکستان کے سیاسی او ر معاشرتی حالات سے نالاں ہو کر اپنے بچوں سمیت آسٹریلیا منتقل ہوگئے اور دو سال گزرنے کے باوجود اب تک نہ تو اپنے شعبے میں نوکری حاصل کر پائے، نہ وہ پر سکون زندگی جس کے خواب انہوں نے ملک میں دیکھے تھے۔ لیکن اپنی تمام تر قربانیوں اور تکالیف کو وہ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کا صدقہ سمجھ کر بخوشی سہہ رہے ہیں۔
35 سالہ ماہر نفسیات عمارہ نے حال ہی میں کینیڈا کے راستے کھلنے پر اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کی ٹھانی اور اس دور دراز برفیلے دیس میں جا کر بس گئیں جہاں انہیں کچھ اور ملے نہ ملے بحیثیت ایک غیر شادی شدہ خاتون، معاشرتی دباؤ اور خاندان کے بے جا طعنوں سے نجات ضرور مل گئی ہے۔
حکومت پاکستان کے جنوری 2016 میں کیے گئے حالیہ سروے کے مطابق، قریباً 7.8 ملین پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں جو کہ ملک کی آبادی کا اوسطاً 4 فیصد بنتا ہے۔ ان بیرون ملک پاکستانیوں میں سے ایک بڑی تعداد مشرق وسطیٰ میں رہائش پذیر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سال 1971 سے 2015 کے درمیان تقریباً 80 لاکھ پاکستانیوں نے قریباً پچاس کے قریب ممالک میں رخت سفرباندھا جن میں سرِفہرست سعودی عرب، متحدہ عرب عمارات، بحرین، کویت، عمان، قطر، برطانیہ، امریکا اور کینیڈا ہیں۔
نائمہ علی 40 برس کی ہیں۔ ایک ممتاز پاکستانی بینک کی اعلیٰ نوکری چھوڑ کر وہ حال ہی میں اپنے خاندان کے ساتھ امریکا جا بسیں۔ وجہ جاننے پر یوں گویا ہوئیں "امریکہ میںِ زندگی قدرے محفوظ اور بچوں کا مستقبل روشن ہے۔ ان کے پاس کام کرنے اور تعلیم کے ان گنت مواقع موجود ہیں جو کہ میری ہجرت کا اصل مقصد ہے۔"
پڑھیے: تارکینِ وطن کب تک 'خود غرض' کہلائیں گے
تاحال نائمہ ایک انڈین ہوٹل میں کام کر رہی ہیں اور اکثر اپنے خاندان، خصوصاً ماسی کو یاد کرکے روتی ہیں۔ تاہم ان کے نزدیک زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ علی جو کہ نائمہ کے شوہر ہیں، ان کے لیے یہ فیصلہ نسبتاً اور بھی مشکل تھا۔ خصوصاً اس تناظر میں کہ وہ پاکستان میں ایک نجی ادارے میں آئی ٹی ہیڈ کی حیثیت سے عمدہ مراعات حاصل کر رہے تھے اور اب امریکا میں سیکورٹی گارڈ کے طور پر روزگار کمانے میں مصروف ہیں۔ عمیر کے بقول ہجرت کی کڑوی گولی اپنے ملک میں فرقہ وارانہ تعصب اور ٹارگٹ کلنگ کی کی وجہ سے نگلنی پڑی جس کا شکار ان کے اپنے بھائی اور کزن ہو چکے ہیں۔