پاکستان

لندن فلیٹس 90 کی دہائی سے شریف خاندان کی ملکیت ہیں،بی بی سی

نیلسن اور نیسکول کے ان فلیٹس کی ملکیت میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی، برطانوی نشریاتی ادارے کا دعویٰ

لندن: برطانوی نشریاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ لندن فلیٹس 90 کی دہائی سے شریف خاندان کی ملکیت ہیں۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کے زیر تصرف فلیٹس 1990 کی دہائی میں خریدے تھے اور اس کے بعد سے ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

بی بی سی کو حاصل ہونے والے سرکاری دستاویزات کے مطابق 90 کی دہائی سے مے فیئر کے یہ 4 فلیٹس نیسکول اور نیلسن کے نام پر ہی ہیں، جبکہ ان دونوں کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کرچکے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق مے فیئر اپارٹمنٹس کے اسی بلاک میں ایک اور فلیٹ برطانوی کمپنی ’فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ‘ کی ملکیت ہے، جس کے ڈائریکٹر نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز ہیں۔

فلیگ شپ انویسٹمنٹ نے ’ایون فلیڈ ہاؤس‘ میں فلیٹ نمبر ’12 اے‘ 29 جنوری 2004 میں خریدا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس:'نااہلی کیلئے سزا یافتہ ہونا ضروری'

برطانیہ میں کاروباری کمپنیوں کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے کی ان دستاویزات کے مطابق حسن نواز نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ لیمٹڈ کمپنی 2001 میں کھولی تھی اور اس پر ان کا جو پتہ درج ہے وہ پارک لین کے فلیٹ کا ہی ہے۔

اس کے علاوہ حسن نواز چار دیگر کمپنیوں کوئنٹ پیڈنگٹن لمیٹڈ، کوئنٹ گلاسٹر پیلس لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ اور کیو ہولڈنگز لمیٹڈ کے بھی ڈائریکٹر ہیں اور ان سب کمپنیوں پر بھی ایون فیلڈ ہاؤس کے فلیٹ کا ہی پتہ دیا گیا ہے۔

دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ مے فیئر میں پہلا فلیٹ 17 ایون فیلڈ ہاؤس یکم جون 1993 میں نیسکول لمیٹڈ نے خریدا۔

ایون فیلڈ ہاؤس ہی کی عمارت میں دوسرا فلیٹ نمبر سولہ، 31 جولائی 1995 میں نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ نے خریدا۔

اسی عمارت میں تیسرے فلیٹ ’سولہ اے‘ کی خریداری بھی اسی تاریخ کو کی گئی اور یہ فلیٹ بھی نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ ہی نے خریدا۔

چوتھا فلیٹ ’سترہ اے‘ 23 جولائی 1996 کو نیسکول لمیٹڈ نے خریدا۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس کا بار ثبوت اب وزیراعظم کے وکلاء پر: سپریم کورٹ

یاد رہے کہ پاناما پیپرز میں دیگر آف شور کمپنیوں کے علاوہ نواز شریف کے بچوں کے نام پر نیلسن اور نیسکول نامی آف شور کمپنیوں کا بھی انکشاف کیا گیا تھا۔

اس انکشاف کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم اور ان کے خاندان پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے۔

بعد ازاں اسی حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کیں۔

وزیر اعظم کے خاندان کی طرف سے ان کمپنیوں اور اپارٹمنٹس کے حوالے سے عدالت میں جو وضاحتیں اب تک پیش کی گئی، ان میں قطر کے شہزادے کا خط بھی شامل ہے جسے اپوزیشن جماعتوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کے انکشاف کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے نیلسن اور نیسکول کی ملکیت قبول کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لندن میں پارک لین اپارٹمنٹس ہمارے ہیں، جو دو آف شور کمپنیاں نیلسن اور نیسکول کی ملکیت ہیں جن کا میں بینیفشل مالک ہوں، جبکہ یہ کمپنیاں ایک ٹرسٹ کے ماتحت کام کرتی ہیں جو میری بہن مریم نواز کا ہے۔‘