ایک دن میں 24 گھنٹے کیوں ہوتے ہیں؟
ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں کمپیوٹر کے فنکشن سے لے کر عام چیزوں کی خریداری تک 10 کے ہندسے پر مبنی اعشاری نظام کی حکمرانی ہے۔
تو پھر ہمارے سیارے زمین کا ایک عام دن صرف 10 گھنٹے کی بجائے 24 گھنٹے کا کیوں ہے؟ اس کا کریڈٹ قدیم مصر کے سر ہے۔
جی ہاں جب انسانی تہذیب شکاری معاشرے سے زراعت کی جانب بڑھنے لگی تو لوگوں کو احساس ہوا کہ انہیں اپنی زیرملکیت اشیاءکی گنتی کی ضرورت ہے۔
تو اس طرح لوگوں نے اُسی طرح گنتی سیکھنا شروع کی جیسے آج کل بچے سیکھتے ہیں یعنی اپنی انگلیوں پر۔
3 ہزار قبل مسیح کی مصری دیواری تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت 10 کے ہندسے پر مبنی اعشاری نظام موجود تھا، مگر پھر بھی انہوں نے اپنی گھڑیاں 12 کے ہندسے پر کیوں سیٹ کیں؟
مانا جاتا ہے کہ مصریوں کو 12 کے ہندسے پر نظام سمیری (قدیم بابل) کی ثقافت سے ورثے میں ملا، جس میں آٹھ انگلیوں کے ساتھ ساتھ انگوٹھوں کے جوڑوں کو بھی گنا جاتا تھا۔
اس طرح مصریوں نے دن کو 12، 12 گھنٹوں میں تقسیم کیا یا یوں کہہ لیں کہ 10 گھنٹے دن، ایک، ایک گھنٹہ فجر اور مغرب کے وقت کا، جبکہ 12 گھنٹے تاریکی کے لیے۔
مصریوں نے گھنٹوں کا تعین 36 چھوٹے ستاروں کے جھرمٹ سے کرنا شروع کیا جنھیں ڈیکینز کہا جاتا تھا، جن میں سے ہر ایک جھرمٹ 40 منٹ بعد طلوع ہوتا تھا اور اس طرح وہ ہر چالیس منٹ بعد ایک نئے گھنٹے کا آغاز کرتے تھے۔
کئی صدیوں بعد یونانیوں نے اس نظام کو بے کار قرار دیا، وہ دن کی طوالت کو ٹھیک کرنا چاہتے تھے،جس کے بعد Hipparchus نامی ماہر نجوم نے مصری ستاروں کی گھڑی کو اُس گھڑی کے مطابق ڈھالا جو ہم آج استعمال کرتے ہیں، جس میں روشنی اور تاریکی کو 12، 12 گھنٹوں کی یکساں طوالت میں تقسیم کیا گیا۔
تو اس طرح آج ہمارا دن 24 گھنٹوں پر مشتمل ہے، جس کی تاریخ یا وجہ بہت کم افراد جانتے ہیں۔