صحت

اپنڈکس جسم کے لیے کارآمد عضو قرار

سائنسدانوں کو بھی آج تک معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ اپنڈکس کس مقصد کے لیے جسم کا حصہ ہے مگر اب یہ راز کھل گیا ہے۔

اپنڈکس یا ضمیمہ انسانی جسم کو وہ عضو ہے جسے اکثر افراد آپریشن کرکے نکلوا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر بھی ہم ٹھیک ہی رہیں گے۔

سائنسدانوں کو بھی آج تک معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ اپنڈکس جس مقصد کے لیے جسم کا حصہ ہے مگر اب یہ راز کھل گیا ہے۔

یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

مڈ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اپنڈکس کا جسم میں مقصد کیا ہے۔

تحقیق کے مطابق اپنڈکس ثانوی قوت مدافعت ہے جو جسمانی دفاعی نظام کے خلیات کے ردعمل کو تحرک دینے اور معدے میں موجود صحت کے لیے فائدہ مند بیکٹریا کی تعداد کو اس وقت بڑھاتی ہے جب ان میں کمی آتی ہے۔

یہ جسمانی افعال کے دوران محدود سطح پر اپنا کردار ادا کرنے والا عضو ہے۔

اس تحقیق کے محققین نے آٹھ سال تک کام کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیقی ٹیم کی قائد ہیتھر اسمتھ کا اپنا اپنڈکس بارہ سال کی عمر میں سرجری کے ذریعے نکالا جاچکا تھا۔

محققین نے 533 ممالیہ جانداروں میں اس عضو کا جائزہ لیا گیا، جن کا تعلق دنیا کے مختلف حصوں سے تھا جبکہ ان کی غذائی عادات بھی ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔

تحقیق کے دوران ان سب جانداروں کے اپنڈکس میں مماثلت کا جائزہ لیا گیا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ عضو انسانوں کے کس کام آتا ہے۔

محققین اپنڈکس کے حجم اور غذائی، ارضیاتی اور سماجی کرداروں کے درمیان تعلق دریافت کرنے میں ناکام رہے مگر اس کی ایک مشترکہ عادت سے ضرور تلاش کرلی۔

ان کے بقول ' جن جانداروں میں اپنڈکس ہوتے ہیں، ان کی کور آنت میں لمف ٹشوز کی بہت زیادہ تعداد جمع ہوتی ہے۔

کور آنت غذائی نالی کا وہ حصہ ہے جو بڑی آنت سے شروع ہوتا ہے ، یعنی اس جگہ جہاں اپنڈکس بھی ہوتا ہے۔

یہ لمفی ٹشوز خلیات سے بھرے ہوتے ہیں اور جب جسم جب مشکل کا شکار ہوتا ہے تو وہ ایک دفاعی ردعمل کو حرکت میں لاتے ہیں۔

مزید برآں تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اپنڈکس فائدہ مند بیکٹریا کے ذخیرہ کا کام بھی کرتے ہیں، جو اس وقت کام آتے ہیں جب معدے کے بیکٹریا کا کسی وجہ سے خاتمہ ہوجائے۔

واضح رہے کہ اکثر اپنڈکس کو ممکنہ جان لیوا ورم اور پھٹنے کے خطرے کے پیش نظر جسم کے نکال دیا جاتا ہے اور کوئی خاص نقصان بھی نہیں ہوتا۔

یہ تحقیق جریدے کومپٹیس رینڈیوس پیلیول میں شائع ہوئی۔