میں کیوں لاپتہ نہیں ہو سکتی
گزشتہ شام سیل فون پر بجتی ستار کی دھن نے اینٹی الرجی دوا کے اثر پر نہایت بے سُرے اثرات مرتب کرتے جاگنے پر مجبور کیا۔
عینک تلاش کرنے کا تردد کیے بغیر جونہی ہیلو کہا تو دوسری جانب سے ہانپتی ہوئی آواز آئی، "افشاں آپ خیریت سے ہیں؟ اطلاعات کچھ اچھی نہیں مِل رہی تھیں۔"
تین روز سے رٹا رٹایا جواب دہرا کر اس مہربان فکرمند دوست کو تسلی دیتے اللہ حافظ کیا۔ یہ تفکر بھری دوستانہ تفتیش کا دسواں راؤنڈ تھا جو چند گھنٹوں میں نمٹایا تھا۔
کچھ نجی مصروفیات، گزشتہ برس سے التوا میں پڑی زیرِ مطالعہ کتب ختم کرنے کی دھن اور موسمی الرجی سے نمٹنے کی دوائیں کھاتے سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فورمز سے ان دنوں کچھ دوری اختیار کرنے پر مجبور ہوں۔
لیکن اس دوران "سجے کھبے" سے زیادہ Friend or Foe والے فارمولے کے تحت بلاگرز اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے سنا ہے تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہے ہیں۔
ٹی وی چلایا تو دیکھتی ہوں کہ میک اپ میں لتھڑے کچھ اینکرز لاپتہ افراد کے نام، پتے اور شکلوں کی شناخت کے ساتھ ان کے نظریات و عقائد کو تفصیلاً واضح کر کے ان کی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں، تو دوسری جانب "فارغ دفاعی تجزیہ کار" اب سلمان حیدر جیسے استاد اور ترقی پسند شاعر کے علاوہ کچھ دیگر آوازوں کے پنجابی والے 'چُکے جانے' کا بودے دلائل سے دفاع کررہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کچھ لوگ تو رقصِ بسمل میں مصروف فتح کا جشن مناتے ہوئے مجھے امتنان قاضی کی بات یاد کروا رہے ہیں کہ "محض اپنے نظریات میں بہتری کی سعی نہ کرنا تنگ نظری نہیں، کسی دوسرے کے نظریات کے مٹ جانے کی خواہش بھی تنگ نظری ہے۔"
اعتدال و توازن کے نام پر بھی ہم بہت عجیب روایت کے امین بن چکے ہیں، یہاں اپنے واسطے جو آزادی حق سمجھ کر چھیننے کو بے تاب ہوتے ہیں، دوسروں کے اسی حق کے استعمال پر باقاعدہ سینہ کوبی فرماتے ہیں۔
ریکارڈ کی درستگی کے لیے جاننا چاہوں گی کہ دھرے جانے والے لوگوں میں عدلیہ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والی صحافت کی کالی بھیڑیں، یا کسی دوسرے ریاستی ادارے کے سربراہ کے عقیدے کے بارے میں من گھڑت باتیں پھیلانے والا ساجد میر نامی کوئی شخص بھی شامل ہے؟
مجھے بہرحال سلیم شہزاد اس لیے یاد نہیں آ رہے کہ ان کا جرم زیادہ سنگین نوعیت کا تھا، ورنہ تو یاد کرنے کو تاحال گمشدہ زینت شہزادی بھی ہے، اور حال ہی میں کئی ماہ کے بعد اچانک لوٹ آنے والے واحد بلوچ بھی ہیں کہ جن کی واپسی پر کسی نے اسیری کی وجوہات اور آزادی کی قیمت دریافت کرنے کی جرات نہیں کی۔
متضاد اخباری اطلاعات کے مطابق کئی سماجی کارکن نئے برس کے پہلے ہفتے میں یوں ہی غائب ہوگئے ہیں جیسے بلوچستان سے ماؤں کے جوان بچے یا پشاور سے لاپتہ ہونے والے نیفا کے پروفیسر فضل طارق۔
سلمان حیدر کے معاملے میں مؤرخ تو یہ بھی لکھنے سے قاصر ہے کہ دارالحکومت کو سیف سٹی کا درجہ دینے والے اُن کیمروں کا کیا کرنا ہے جو ہر چند میل پر نصب ہیں۔
وہ شاید یہ یاد کرتے ہوئے شرما جائے کہ کچھ عرصہ قبل ڈی چوک میں کیسے ایک مسلک کے لوگوں نے کیسے ڈیرے جما کر ریاستی عہدوں اور شخصیات پر نہ صرف کیچڑ اچھالا، بلکہ کھلے عام دھمکایا بھی گیا۔ عوام کو اس بات سے کبھی آگاہ نہیں کیا گیا کہ ان لوگوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، ہوئی بھی یا نہیں۔
پہلے عقیدے کی بنیاد پر کسی مسلک کے پڑھے لکھے بچوں کو چُن چُن کر موت کی نیند سلایا جاتا تھا، اب تنقید کرنے اور سوال اٹھانے والوں کو جانے کون سے اُڑن کھٹولے اُٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگی میں گزشتہ چھے برسوں کے دوران سب سے زیادہ کیسز، 728 پچھلے سال درج کیے گئے ہیں۔
آواز دبانے اور چہرے منظر سے غائب ہوجانے پر سوالات کی تدفین نہیں ہوپاتی، بلکہ سوالات کا کیڑا نئے اذہان میں کلبلانے کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔ جمہوری اور مہذب معاشروں میں سوال اور اختلافِ رائے کو مذہبی و سیاسی عقائد سے جوڑ کر ایمان اور حب الوطنی کے معین کردہ معیار سے ہٹنے کی سزا مسخ شدہ موت تو ہرگز نہیں ہوتی، یا پھر ترکی سے یارانہ نبھاتے وہاں کا ماڈل اپنانے کی روش چل نکلی ہے؟ بنگلہ دیش میں بلاگرز کے ساتھ کیا ہو رہا ہے وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
ہماری ریاست اور اس کے ادارے جرم کی نوعیت کیوں نہیں بتا دیا کرتے؟ اگر ان کی تحویل میں ایک شہری ہے تو اس کے لواحقین کو بتانے میں کیا قباحت ہے جو ہر پل سسکتے ہیں؟
اور اگر کسی ادارے نے کارروائی نہیں کی تو بازیابی کی ذمہ داری وزارتِ داخلہ و دفاع میں سے کِس کے پلے ڈالی جائے، یہ کوئی بتانے کو راضی نہیں۔
ابھی ایک قریبی عزیز کو تسلی دی ہے کہ میری گمشدگی کے امکانات معدوم ہیں، اور جواز اس یقین کا یہ ہے کہ مجھے زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ بڑے بڑے نام میرا حوالہ دیا کریں۔ نہایت بے ضرر سے بلاگز کی جگالی کر لیا کرتی ہوں جن میں چٹنی، اچار اور مربے وغیرہ کی بساند آتی ہے۔
شکر ہے بھئی کہ ہم نے کبھی جبری گمشدگی یا لاپتہ افراد بارے محاورتاً ماں سے زیادہ چاہ کر پھاپھے کٹنی کہلوانے کا شوق نہیں پالا۔
اور شکر ہے اس مالک کا جس نے عقل دی کہ بی بی تجھے پرائی آگ میں کود کر کیا ملے گا، یوں ہی کسی روز کھٹارا گاڑی میں کسی سڑک کنارے لاوارث پڑی ہوگی۔
پھر طویل ذمہ وار پریس کانفرنس کرتے ہمارے وزیرِ داخلہ صحافیوں کو بتائیں گے کہ میرے الفاظ کے تابکاری اثرات سے معاشرے میں کیسی مہلک وباء پھوٹنے کا اندیشہ تھا، لیکن پھر بھی لواحقین کا دل رکھنے کے لیے 24 گھنٹوں میں اصل مجرموں تک پہنچنے کی نوید سنا دیں گے۔
ڈرانے والے تو یوں ہی ڈراتے ہیں کہ خاموش رہو، ورنہ لاپتہ ہونے والوں کے لیے آواز بلند کرنے والے اگر کل غائب ہوئے ہیں تو آنے والے کل میں ہم تم بھی غائب ہوسکتے ہیں۔ میں لیکن اپنے تئیں مطمئن ہوں کہ ایسا ممکن نہیں۔
ان سب طفل تسلیوں کے بعد اچانک خیال آگیا ہے کہ اگر میں ان میں سے کسی بھی جرم کی مرتکب نہیں ہوں تب بھی محتاط رہوں کیوں کہ تازہ ترین تحقیق کے حساب سے ایک بے حیاء چلغوزہ تو ضرور ہوں جس کی بناء پر کڑی سزا کی مستحق کہلوائی جا سکتی ہوں۔
افشاں مصعب اسلام آباد میں مقیم ہیں، زندگی پر لکھنا پسند کرتی ہیں، سیاست، سماجیات اور نفسیات ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ متعدد بلاگ پیجز پر ان کی تحاریر شائع ہو چکی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: AfshanMasab@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔