پاکستان

فرقہ وارانہ اوردہشت گردتنظیموں کاموازنہ غلط، وزیر داخلہ

چوہدری نثار کی جانب سے کالعدم تنظیموں کی درجہ بندی پیش کیے جانے پر اپوزیشن کا سینیٹ سے واک آؤٹ

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے سینیٹ میں دیے گئے ایک بیان میں کالعدم تنظیموں کی درجہ بندی پیش کیے جانے پر تنازع کھڑا ہوگیا جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے ایوان بالا سے واک آؤٹ کیا۔

کالعدم تنظیم کے وفد سے ملاقات کے حوالے سے اٹھائے گئے اعتراض پر وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کالعدم فرقہ وارنہ تنظیموں کا موازنہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے نہیں کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے فرقہ وارانہ تشدت گذشتہ 1300 سال سے جاری ہے۔

ایوان بالا سے واک آؤٹ کی سربراہی کرنے والے سینیٹر طاہر حسین مشہدی کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیم کے رہنما، جنھیں چائے پیش کی گئی، وہ اس تشدد کے ذمہ دار ہیں۔

واک آؤٹ کے بعد ڈان سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ وزیر داخلہ کا بیان حیران کن ہے جیسا کہ بہت سے فرقہ وارانہ گروپ انتہائی خطرناک ہیں اور طالبان سے بھی زیادہ ظالم ہیں۔

حکومت کو فرقہ وارانہ تشدد بڑھانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے طاہر مشہدی کا کہنا تھا کہ یہ فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی دہشت گرد ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ کچھ تنظیمیں مکمل دہشت گرد ہیں جبکہ کچھ فرقہ وارانہ جھگڑوں میں ملوث ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ جماعتیں ہیں جنھیں ماضی کی حکومتوں نے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔

جبری گمشدگیوں کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس عمل کی بنیاد 2002 سے 2008 کے درمیان پڑی تھی لیکن نہ ہی اب یہ حکومت کی پالیسی ہے اور نہ ہی حکومت اسے برداشت کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ 'اب فیصلے حکومت اور پارلیمنٹ میں کیے جاتے ہیں، کہیں اور نہیں ہورہے'۔

ان کا دعویٰ تھا کہ تقریبا ساڑھے تین سال کے دوران متعدد لاپتہ افراد کو برآمد کیا گیا اور حکومت نے اس حوالے سے جون 2013 میں انتظامات سنبھالتے ہی اپنی پالیسی واضح کردی تھی۔

انھوں نے خود پر، اپنی وزارت پر، نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے حکومت پر اور داخلی سیکیورٹی صورتحال کے خلاف ہونے والے پروپگینڈے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال 5 مارچ سے اب تک وہ ایوان کو 4 مرتبہ بریفنگ دے چکے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس کا نیا ریکارڈ حال ہی میں صوبوں کو بھیجا گیا ہے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت کو کراچی ایئرپورٹ پر حملے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا اس کے باوجود کہ سندھ کی حکومت کو 3 مرتبہ خبردار کیا گیا تھا اور یہاں تک دہشت گرد جس گیٹ سے ایئرپورٹ میں داخل ہوئے تھے اس حوالے سے بھی معلومات فراہم کی گئی تھیں۔

انھوں نے خود پر تنقید کرنے والوں کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے بجائے صوبوں اور وفاق کی حدود کا تعین کرنے کی تجویز دی۔

انھوں نے تفصیلات فراہم کیں کہ وفاق کو صوبوں میں آپریشن کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وفاق کے صوبہ سندھ اور خیبرپختونخوا سے اچھے تعلقات قائم ہیں وہ کسی کو بھی اس تعلق کو خراب کرنے کیلئے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی اجازت نہیں دیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ کراچی میں آپریشن کا آغاز تمام جماعتوں کی مشاورت سے ہوا تھا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر نے جولائی 2013 میں سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل، وزیراعلیٰ، گورنر اور دیگر سیاسی قیادت سے ہونے والی ان کی ملاقات کی نشاندہی کی، اس کے علاوہ ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے 28 اگست کو کراچی کو آرمی کے حوالے کرنے کے بیان کا حوالہ بھی دیا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں سول آرم فورسز کے ذریعے آپریشن کا مؤقف ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ وفاق اور صوبائی حکومت کی جانب سے مشترکہ آپریشن کا آغاز کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے موقع پر جب دنیا میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے پاکستان کی مجموعی صورت حال انتہائی مختلف ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں بہتری آرہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ملک میں ہونے والے واقعات کی تعداد سال بھر میں ایک ہزار سے کم ہوئی ہے اور ان میں سے 474 واقعات میں لوگوں کی قیمتی جانیں گئیں ہیں۔

چوہدری نثار نے دعویٰ کیا کہ جس وقت وزیراعلیٰ سندھ کے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا تھا انھوں نے ان کی حمایت میں بیان جاری کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں اور جس وقت دہشت گردی سے نمٹنے کی ضرورت ہو تو سب کا ایک ہونا ضروری ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ انھوں نے گذشتہ ساڑھے 3 سال کے دوران سیکیورٹی معاملات اور انسداد دہشتگردی پر 142 اجلاسوں مٰں شرکت کی ہے، جن میں وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی 44 ہائی پروفائل سیکیورٹی اجلاس بھی شامل ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں سوات اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت زیادہ کارگر تھے لیکن ان کی وجہ سے شہری علاقوں میں سالانہ دہشت گردی کے حملوں کی تعداد 2000 سے تجاوز کرگئی۔

ان کا ماننا تھا کہ صرف فوجی آپریشن سے داخلی سیکیورٹی ممکن نہیں۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بڑے مسائل کا حل مشترکہ اقدامات سے ممکن ہے، شمالی وزیرستان کے آپریشن میں جانیں قربان کرنے والے آرم فورسز کے اہلکاروں نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے اور اسے منتقی انجام تک پہنچانے کیلئے مشترکہ کوششیں بروکار لائی جائیں۔

مدارس کو کالعدم قرار دینا مضحکہ خیز

بعد ازاں پارلیمنٹ میں اپنے چیمبر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے انکشاف کیا کہ سندھ حکومت نے ان کی وزارت کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں 94 'مشتبہ' مذہبی مدارس کو کالعدم قرار دینے کو کہا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے، آپ مدراس کو کیسے کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟'

ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث مدارس کے خلاف صوبے کو خود کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ سب سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ فہرست میں دیگر صوبوں میں موجود مدارس کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں۔

انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل کہ وزارت داخلہ کو مذکورہ فہرست فراہم کی جاتی وزیراعلیٰ نے اس پر بیان بھی دیا تھا۔

یہ رپورٹ 11 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی