پاکستان

کراچی: یومیہ 20 کروڑ گیلن غیر معیاری پانی کی سپلائی

پانی کے ذخیرہ گاہوں کی صفائی میں 3 سے 4 ماہ کا عرصہ درکار ہے جسکے ہم متحمل نہیں ہوسکتے، واٹر بورڈ حکام

کراچی میں یومیہ 20 کروڑ گیلن بغیر فلٹر اور بغیر کلورینیشن پانی کی فراہمی کی جارہی ہے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کے پاس پینے کے پانی کو مناسب انداز میں کلورینشن کرنے اور مضر صحت اجزاء کی موجودگی کی جانچ کا نظام بھی موجود نہیں۔

پورٹ قاسم اتھارٹی کے حدود میں قائم صرف 180 صنعتی یونٹس کے پاس اپنے فضلے کیلئے ٹریٹمنٹ پلانٹس موجود ہے اور بیشتر فضلہ بغیر مناسب انتظام کے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔

یہ صورت حال اس وقت سامنے آئی جب جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی مختلف اہم تنصیبات اور پورٹ قاسم کے علاقے میں موجود فضلے کے ٹریٹمنٹ پلانٹ کا دورہ کیا۔

ان کے ہمراہ کے ڈبلیو ایس بی اور سندھ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (سیپا) کے حکام، سول سوسائٹی آرگنائزیشن کے اراکین، پٹیشنر اور متعدد صحافی بھی موجود تھے۔

کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ کے سابق میجنگ ڈائریکٹر محمد سلمان چانڈیو اور پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کمشین کو مدد فراہم کررہےہیں۔

خیال رہے کہ مذکورہ کمیشن سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ کے عوام کیلئے صاف ماحول، پینے کے صاف پانی اور صفائی کی سہولیات کی فراہمی میں ریاستی ناکامی کی تحقیقات کیلئے بنایا گیا، جس کی رپورٹ 6 ہفتے میں تیار کرکے پیش کی جائے گی۔

کمیشن کو سندھ ماحول تحفظ ایکٹ 2014 کے حوالے سے سیپا کے کردار کی جانچ کا کام بھی سونپا گیا ہے۔

بغیر فلٹر پانی کی فراہمی کے حوالے سے اہم اور خوفناک انکشافات پپری پمپنگ فلٹر پلانٹ پر موجود کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے حکام نے کیے، ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ پلانٹ میں صرف 60 فیصد پانی کو فلٹر کرنے کی سہولت موجود ہے جبکہ شہر کو فراہم کیے جانے والے پانی کی دیگر مقدار بغیر فلٹر کے سپلائی کی جاتی ہے۔

کے ڈبلیو ایس بی کے ڈپٹی میجنگ ڈائریکٹر فار ٹیکنیکل سروسز اسد اللہ خان کا کہنا تھا کہ 'سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دریائے سندھ سے شہر کو فراہم کیے جانے والے 55 کروڑ گیلن پانی میں سے 20 کروڑ گیلن پانی بغیر فلٹر کے فراہم کیا جاتا ہے'۔

کمیشن کے سربراہ کو بریفنگ دیتے ہوئے افسر کا مزید کہنا تھا کہ نظام کو اپ گریڈ کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے تاکہ فلٹر کرنے کی سہولت میں اضافہ کیا جاسکے۔

کے ڈبلیو ایس بی کے افسر کے مطابق مالی مشکلات کی وجہ سے بورڈ کی توجہ نظام میں بہتری کے بجائے پانی کی سپلائی کرنے پر مرکوز ہے۔

انھوں نے زور دیا کہ پلانٹ میں کلورین کے استعمال سے جراثیم مر جاتے ہیں جو فلٹر کیے ہوئے پانی میں باقی رہ سکتے ہیں۔

کے ڈبلیو ایس بی کے افسر کا کہنا تھا کہ 'فلٹریشن کی سہولت میں کمی کی وجہ سے ہم سارے پانی کو کلورین کے ذریعے صاف کرتے ہیں جس سے پانی کا معیار بہتر ہوجاتا ہے جبکہ فلٹریشن سے صرف پانی میں موجود ذرات علیحدہ کیے جاتے ہیں'۔

کمشین کے ہمراہ پانی فراہم کرنے کی سہولیات کا دورہ کرنے والے بیشتر افراد پپری فلٹر پلانٹ کی لیبارٹری میں پانی کی معیار کی یومیہ جانچ کا ریکارڈ دیکھ کر حیران رہ گئے جب انھیں بتایا گیا کہ پانی کے معیار کو روزانہ کی بنیاد پر جانچ پڑتال نہیں کیا جاتا۔

اس کے علاوہ لیبارٹری کے پاس پانی میں موجود بھاری دھاتوں کی جانچ کی سہولت بھی موجود نہیں ہے، یہ پانی کینجھر جھیل سے لیا جاتا ہے جس میں قریبی علاقے میں قائم صنعتوں کا پروسس کے بغیر فضلہ بھی شامل ہوتا ہے۔

پپری فلٹر پلانٹ کے ذریعے لانڈھی، ملیر، کورنگی، اختر کالونی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور شاہ فیصل کے علاقوں میں پانی کی سپلائی کیا جاتی ہے، اس ذخیرے کی حالت انتہائی خراب تھی۔

دھابے جی پمپنگ اسٹیشن کے دورے کے موقع پر کے ڈبلیو ایس بی کے عہدیدار نے بتایا تھا کہ شہر کو 50 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

کے ڈبیلو ایس بی کے حکام نے کمیشن کو بتایا کہ 'یہ سب فنڈز کی کمی کی وجہ سے ہے، جبکہ ذخیرہ گاہ کی صفائی کیلئے 3 سے 4 ماہ کا عرصہ درکار ہے جسکے ہم متحمل نہیں ہوسکتے'۔

اس موقع پر پی سی آر ڈبلیو آر کے ماہرین نے پانی کے نمونے بھی حاصل کیے۔

پی سی آر ڈبلیو آر کے ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ 'ہم نے کراچی، حیدرآباد، بدین، سکھر، ڈنڈو محمد خان اور شکارپور سے 200 سے زائد نمونے حاصل کیلئے ہیں اور ان کے جانچ کی رپورٹ آئندہ 15 روز میں کمیشن کو بھیج دی جائے گی۔

مذکورہ معلومات کو کمیشن اپنی رپورٹ میں شامل کرکے آنے والے ہفتوں میں سپریم کورٹ کو پیش کردے گا۔

بعد ازاں کمیشن نے پورٹ قاسم اتھارٹی کے چھوٹے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا دورہ بھی کیا جو مخصوص عرصے میں ہی کام کرتا ہے۔

اس موقع پر کمیشن نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ کچھ صنعتی یونٹس فضلے کو ٹھکانے لگانے کا کام انجام نہیں دے رہے ہیں۔

یہ رپورٹ 11 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی