مائی مَتُو کا گاؤں جسے زمین نہیں "سمندر" نگل رہا ہے
مائی مَتُو کا گاؤں جسے زمین نہیں "سمندر" نگل رہا ہے
آپ نے کبھی اُس بچے کی معصومیت، بے بسی اور بے چارگی دیکھی ہے جو کھیل کود میں مگن ہو اور پھر اچانک اُس کے ہاتھوں سے کھلونا چھین لیا جائے؟ اور پھر وہ ایسی کیفیت میں ڈوب جائے کہ نہ رو سکے اور نہ اپنی محرومیوں پر چلا سکے۔ بس اپنی بے بس آنکھوں سے اُس چھیننے والے کو مسلسل تکتا رہے۔ کیونکہ اُس کے بس میں فقط یہ ہی رہ جاتا ہے۔
سمندر کے کنارے کچھ ایسی آبادیاں ہیں، جن کی کیفیت اس بچے کی کیفیت سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اب اس میں قصور خود کناروں کا ہے یا سمندر کا جو اپنے کناروں پر بسنے والوں سے بیوفائی کر رہا ہے اور نہ جانے کتنے موسموں کی رفاقت کو بھُلا کر اپنے پڑوسیوں کے آنگن نگلتا جاتا ہے، اس کا فیصلہ وقت پر اور آپ پر چھوڑتے ہیں کہ اس بیوفائی کا مُرتکب آخر کون ہے۔ سمندر، کنارے یا انسان؟
میں ان سمندر کے کناروں پر گزشتہ پچاس برسوں سے جا رہا ہوں۔ لیکن اس دفعہ جب سات برس کے بعد وہاں جانا ہوا۔ ان سات برسوں نے اس منظرنامے سے بہت کچھ چھین لیا تھا۔ بہت سارے رنگ تھے جو شب و روز نے نوچ لیے تھے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا تھا۔