چین: سنکیانگ کی سرحد پر پابندیاں مزید سخت
بیجنگ : چین نے دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر اپنے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں سرحدی تحفظ کو مزید سخت کردیا۔
رپورٹس کے مطابق سنکیانگ کے گورنر کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی۔
ریاستی میڈیا کے مطابق شہرت ذاکر نے خطے کی مرکزی سالانہ سیاسی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ گذشتہ سال ہونے والے اقدامات کو مزید بہتر بنایا جائے۔
چینی اخبار کے مطابق ان اقدامات کا مقصد باغیوں کو سنکیانگ کی حد سے باہر نکلنے اور فوجی تربیت حاصل کرکے سنکیانگ میں داخل ہونے سے روکنے پر پابندی لگانی ہے۔
یاد رہے کہ چین کے صوبہ سنکیانگ میں طویل عرصے سے امن عامہ کی صورتحال خراب ہونے کے واقعات پیش آ رہے ہیں، جبکہ ان واقعات کوبیجنگ کی حکومت کے خلاف قرار یا جاتا یے،سنکیانگ میں ترک نژاد ایغور لسانی گروہ کی اکثریت ہے، جو زیادہ تر مسلمان ہیں، ان میں سے بیشتر افراد کو پہلے ہی کام اور سفر کے حوالے سے مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ان کے لیے پاسپورٹ کا حصول بھی ایک پیچیدہ عمل ہے۔
سنکیانگ کی سرحد افغانستان، پاکستان اور وسط ایشیا کے چار ممالک سے ملتی ہے، جہاں سے تعلق رکھنے والے افراد وضع قطع سے ایغور لوگوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔
ایغور قبیلے کے بعض افراد پر شام میں جاری جنگ میں شرکت اور تھائی لینڈ میں حملوں میں ملوث ہونے کے دعوے سامنے آچکا ہیں۔
2009 میں ہونے والی خوفناک ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ میں سیکیورٹی کے انتظامات سخت کیے گئے تھے، ان اقدامات کے بعد ایغور علیحدگی پسندوں کی جانب سے سنکیانگ سمیت چین کے مختلف علاقوں میں حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی تھی۔
اب پرتشدد واقعات پر بڑی حد تک قابو پایا جاچکا ہے، تاہم بعض اوقات واقعات سیکھنے میں آتے ہیں۔
سنکیانگ کے ہوتان نامی علاقے میں گذشتہ مہینے کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں اسٹاف پر حملہ کیا گیا، جس میں 3 حملہ آوروں کے دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی تھی، بعد ازاں پولیس نے ان حملہ آوروں کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
یہ سنکیانگ میں کئی مہینوں کے بعد ہونے والا ایسا واقعہ تھا جس میں لوگوں کی ہلاکت سامنے آئی۔
اس سے قبل نومبر 2015 میں 28 افراد قتل ہوئے تھے، انتظامیہ کے مطابق ان افراد نے سنکیانگ کے دور دراز علاقے میں واقع ایک کوئلے کی کان میں 11 شہریوں اور 5 پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا تھا۔
علاوہ ازیں چینی ریاستی میڈیا کے مطابق 7 جنوری کو بھی تین مبیہ حملہ آوروں کو ہوتان میں ہونے والے واقعے سے تعلق کے شبے میں قتل کیا گیا جن کی کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
چین کی حکومت کے ناقدین کہتے ہیں کہ سنکیانگ میں ہونے والا تشدد حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے ایغور افراد اپنے آبائی علاقے میں محدود ہوگئے ہیں، اور سنکیانگ کو ہان افراد کی برتری کا سامنا ہے، جو مقامی معیشت، سیکیورٹی فورس اور سول سروس کے میدان میں برتری رکھتے ہیں، کچھ ایغور افراد کے متعلق یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ وسط ایشیا اور مشرق وسطی سے پھیلنے والی انتہا پسند نظریات نے ان کو متاثر کیا۔