نقطہ نظر

سلمان حیدر بھی 'وہی فائل' بن گئے

مجھے اس بات پر بالکل بھی حیرت نہیں کہ گمشدہ افراد کے لیے آواز اٹھانے والا شخص آج خود گمشدہ افراد کی فہرست میں موجود ہے۔

11 ستمبر کے حملوں، ظلم و تشدد کی نئی لہروں، اور 2007 کی وکلاء تحریک کے بعد پاکستان میں سماجی کارکنوں کی ایک نئی نسل نے جنم لیا ہے۔

مذہبی بنیاد پرستی کے مخالف، اور ترقی پسند نظریات اور سیاسی شعور رکھنے والے ان کارکنوں کو اکثر 'لبرل فاشسٹ'، 'موم بتی مافیا'، 'دیسی لبرل'، اور 'ریاست مخالف سیکیولر' کہا جاتا ہے۔

ان کے مخالفین تعداد میں ان سے کہیں زیادہ ہیں، مگر پھر بھی یہ افراد جدیدیت، عوامی معاملات میں مذہب کے مقام، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ریاست کے کردار، اور معاشرے میں عام صنفی تضادات سے متعلق بحث کو سوشل میڈیا پر زندہ رکھنے کامیاب رہے ہیں، اور گذشتہ چند سالوں میں رائے عامہ پر اہم اثرات مرتب کر پائے ہیں۔

پیرس میں مئی 1968 کی بغاوت کے دوران انقلاب پسند طلباء نے ایک نعرہ بلند کیا تھا، "شاعری سڑکوں پر ہے" (poetry is in the streets)۔ برِصغیر کے لوگوں نے ہمیشہ شاعری کے ذریعے مقتدر حلقوں، بدعنوانی اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی ہے، اور شاعری کی یہ دلیرانہ روایت نسل در نسل ہوتی ہوئی اسی روپ میں آج ہماری نسل میں در آئی ہے، جس دلیری کے لیے یہ ہمیشہ سے مشہور ہے۔

'کافر کافر' ایک ایسی ہی نظم ہے جو سلمان حیدر نے تحریر کی تھی۔

جمعے کی رات سے سلمان حیدر گمشدہ ہیں۔ وہ پروفیسر ہیں، شاعر ہیں، اور ایک انسانی حقوق کے کارکن بھی۔ مگر اس سب سے پہلے وہ ایک نرم دل اور بے چین روح ہیں جو ہمارے معاشرے کے حالات پر آزردہ ہے۔

انہیں کسی بھی موقع پر سنا اور پڑھا جا سکتا تھا۔ چاہے اہلِ تشیع پر حملہ ہو یا آرمی پبلک اسکول پر، چاہے ہزارہ برادری کا قتلِ عام ہو یا بلوچ کارکنوں کی گمشدگی، وہ بے آواز لوگوں کی آواز، اور کمزور طبقے کی ڈھال تھے۔ وہ رکاوٹوں کو پار کرتی ایک مزاحم آواز تھے جو جھوٹ کا پردہ چاک کر دیتی تھی۔ اپنی نظموں کے ذریعے انہوں نے غصے، تشویش اور ان تمام جذبوں کا اظہار کیا جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ خود کو مظلوم کے ساتھ کھڑا پاتے تھے۔

اگر تشدد پر اکسانے والوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے مگر برداشت اور حقوق کی بات کرنے والوں کو برداشت نہ کیا جائے، تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ہماری ریاست دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کس قدر سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ کل تک مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کے مطالبے کرنے والوں کو اپنا مطالبہ تبدیل کر کے سلمان حیدر کی بازیابی کا مطالبہ کرنا پڑ رہا ہے۔

یہ حقیقت کہ ایک کالعدم تنظیم دارالحکومت کے مرکز میں جلسہ کرتی ہے، مگر ایک باشعور سماجی کارکن کو اسی شہر سے اٹھا لیا جاتا ہے، ہماری حکومت کی خامیوں کی طرف اشارہ ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کے سلمان حیدر نقاد تھے۔

جب تشدد کو قبول کر لیا جائے مگر اختلاف کو کچل دیا جائے تو یقین رکھیں کہ مستقبل قلم سے نہیں بندوق سے لکھا جا رہا ہے۔

مجھے اس بات پر بالکل بھی حیرت نہیں کہ گمشدہ افراد کے لیے آواز اٹھانے والا شخص آج خود گمشدہ افراد کی فہرست میں موجود ہے۔

سچ کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ خطرات کو نظرانداز کرنے والے لوگ زیادہ نہیں، مگر جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ نہ صرف ایک دوسرے سے ذہنی طور پر منسلک ہوتے ہیں، بلکہ ٹارچر سیلز میں اور قیدخانوں میں بھی انہیں اپنے ساتھی مل جاتے ہیں۔

جب خرم ذکی نے سبین محمود کے جنازے کو کندھا دیا تھا، تو شاید وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ ان کا وقت بھی قریب ہے۔

جب سلمان حیدر نے گمشدہ افراد کے لیے آواز اٹھائی تھی، تو وہ جانتے ہوں گے کہ وہ کچھ لکیروں کو پار کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے ایک اور نظم لکھ ڈالی۔

ابھی میرے دوستوں کے دوست لاپتہ ہو رہے ہیں

پھر میرے دوستوں کی باری ہے

اور اس کے بعد...

میں وہ فائل بنوں گا

جسے میرا باپ عدالت لے کر جائے گا

جب آپ یہ بلاگ پڑھ رہے ہوں گے، سلمان حیدر کی پراسرار گمشدگی کی وجوہات تب بھی واضح نہیں ہوں گی، بالکل ویسے ہی جیسے ان سے پہلے لاتعداد لوگوں کی گمشدگی کی وجوہات۔ شاید انہیں اٹھا لے جانے والوں کے بارے میں دانستہ تذبذب باقی رہے گا۔ اور اگر شاعری یہاں جرم ہے، تو یہ جان لیا جائے کہ نظم مزاحمت کرے گی، اور تب تک لڑے گی جب تک کہ سلمان حیدر اور ان جیسے دیگر کارکنان بحفاظت اپنے گھروں کو نہیں لوٹ جاتے۔

انگلش میں پڑھیں۔

سلیمان اختر

لکھاری سوئیڈن میں انجینیئرنگ پڑھ رہے ہیں، اور معاشرے، کلچر، اور سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔