پاکستان

پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی فوجی عدالتوں کی بحالی کے خلاف

شاہ محمود قریشی کے مطابق تحریک انصاف آرمی کورٹس پر حکومتی مؤقف سنے گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔

اسلام آباد: فوجی عدالتوں کی بحالی کے معاملے پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے مشاورتی اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) فوجی عدالتوں کی توسیع کی مخالفت کرے گی۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس وفاق حکومت کی جانب سے فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے آئینی ترمیم کے حوالے سے مشاورت کا آغاز کیے جانے کے بعد ہوا۔

اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی رکن شیریں مزاری سمیت پیپلز پارٹی کے نوید قمر جبکہ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ بھی موجود تھے۔

صحافیوں سے گفتگو میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر پی پی پی کا مؤقف واضح کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ 'ہمارا یہ نکتہ نظر پہلے دن سے ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: سیاسی و عسکری قیادت کا فوجی عدالتوں میں توسیع پر اتفاق

جماعت اسلامی کے مطابق وہ بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالفت کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت اس معاملے پر حکومتی مؤقف سنے گی اور پھر ہی اپنا مؤقف پیش کرے گی۔

اسپیکر قومی اسمبلی سے بے نتیجہ اجلاس

بعد ازاں اس معاملے پر اپوزیشن رہنماؤں اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے درمیان ہونے والا اجلاس بھی بےنتیجہ رہا۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت سے فوجی عدالتوں کی دو سال کی کارکردگی کی تفصیل مانگی ہے جبکہ تمام اپوزیشن رہنماؤں نے حکومتی مؤقف پر پارٹی قیادت سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد اگلا اجلاس 17 جنوری کو ہوگا۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ تمام رہنماوں نے مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے، اتفاق کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس بات کو مانا ہے کہ وہ 2 سال کے لیے فوجی عدالتوں کو توسیع دینا چاہتی ہے، لیکن اپنی اتحادی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو بھی اس توسیع کے معاملے پر راضی نہیں کرسکی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پچھلی دفعہ بھی فوجی عدالتوں کی مشروط حمایت کی گئی تھی، حکومت 2 سال میں اہم قانونی ترامیم نہ کرسکی، حکومت کب تک ملٹری حکومت کے سہارے چلے گی؟، خیبرپختونخوا حکومت نے بھی فوجی عدالتوں کی بحالی کی حمایت نہیں کی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے اپنے سوالات میں حکومت سے 2 سال میں فوجی عدالتوں کی کارکردگی، انسداد دہشت گردی عدالتوں کی کارکردگی، نیشنل ایکشن پلان کی نوعیت، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال، پارلیمانی کمیٹی اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تشکیل کی وضاحت طلب کی۔

فوجی عدالتوں کا قیام

واضح رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملے میں 132 بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد 6 جنوری 2015 کو آئین میں 21ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015 (ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیئے گئے تھے، جس کا مقصد دہشت گردی کے الزامات عام افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کرنا تھا۔

آل پارٹیز کانفرنس میں بھی تمام جماعتوں نے پاکستان آرمی ایکٹ میں ہونے والی اس ترمیم پر رضامندی کا اظہار کیا تھا تاکہ مخصوص قوانین کے تحت قائم مقدمات پر تیزی سے سماعت مکمل ہوسکے اور اسے دو سال کے عرصے کے لیے آئینی تحفظ بھی فراہم کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'معیاد ختم، ملٹری کورٹس نے کام کرنا بند کردیا'

یاد رہے کہ ابتدا میں فوجی عدالتوں کے قیام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، درخواست گزار نے سپریم کورٹ میں موقف اختیار کیا تھا کہ آئین میں کی جانے والی 21ویں ترمیم موجودہ عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہے، جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے، تاہم یہ پٹیشن سپریم کورٹ کی جانب سے خارج کردی گئی تھی۔

فوجی عدالتوں کی جانب سے ٹرائل کے دوران جن افراد کو سزائے موت اور عمر قید دی گئی، ان کا تعلق القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، جماعت الحرار، توحید جہاد گروپ، جیش محمد، حرکۃ الجہاد اسلامی، لشکر جھنگوی، لشکر جھنگوی العالمی، لشکراسلام اور سپاہ صحابہ سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں سے تھا۔

فوجی عدالتوں نے جن اہم اور معروف مقدمات کا ٹرائل کیا، ان میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا حملہ، صفورہ بس حملہ، سماجی کارکن سبین محمود کا قتل، معروف صحافی رضا رومی پر حملہ، بنوں کی جیل پر ہونے والا حملہ، راولپنڈی کی پریڈ لین مسجد میں ہونے والا دھماکا، ناگا پربت بیس کیمپ پر غیر ملکیوں کا قتل، مستونگ میں اہل تشیع کمیونٹی پر ہونے والا حملہ، اورکرزئی ایجنسی میں فوجی ہیلی کاپٹر پر حملہ، پشاور میں پی آئی اے کے طیارے پر ہونے والا حملہ، میریٹ ہوٹل دھماکا، کراچی ایئر پورٹ حملہ، فرقہ وارانہ دہشت گردی، قانونی نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر ہونے والے حملے، پولیو کی ٹیموں اور تعلیمی اداروں پر ہونے والے حملے شامل ہیں۔