طیبہ کے 'والدین' کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے مالکان کے مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی 10 سالہ طیبہ کے والدین کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے اس حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'بنیادی انسانی حقوق کے معاملات پر راضی نامے نہیں ہو سکتے، حتیٰ کہ والدین بھی بچوں کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتے۔'
چیف جسٹس نے استفسار کیا، 'بچی پر تشدد کے معاملے پر راضی نامہ کیسے ہوگیا؟'۔
مزید پڑھیں: ملازمہ پر تشدد: بچی کے والد نے جج کو 'معاف' کردیا
عدالت نے حکم دیا کہ بچی کے والدین ہونے کے دعویداروں کے ٹیسٹ کروائے جائیں۔
دوسری جانب عدالت نے ڈی آئی جی اسلام آباد کو اپنی سربراہی میں اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کی جانب سے دو ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے 3 دن میں تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر بچی اور اس کے حقیقی والدین کو بھی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا اور اسسٹنٹ کمشنر پوٹھوہار کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔
دوسری جانب جج کی اہلیہ ماہین ظفر کو جواب جمع کرانے کے لیے وقت دے دیا گیا۔
بعدازاں کیس کی سماعت بدھ 11 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔
ویڈیو دیکھیں: گھریلو ملازمہ پرتشدد کا مقدمہ،ایڈیشنل سیشن جج پر الزام
یاد رہے کہ ملازمہ پر تشدد کا معاملہ اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
بعدازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے مبینہ والد کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی 'اعتراض' نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ملازمہ پر تشدد کا معاملہ، 10سالہ کمسن کیلئے محفوظ مقام عدم دستیاب
10 سالہ بچی کے مبینہ والد کی جانب سے بیان حلفی میں تحریر کیا گیا تھا کہ 'انھوں نے کسی دباؤ کے بغیر راضی نامہ کرلیا ہے اور وہ مقدمہ میں نامزد جج کو فی سبیل اللہ معاف کرتے ہیں، عدالت جج یا ان کی اہلیہ کو بری کرے یا ضمانت دے انھیں کوئی اعتراض نہیں'۔
بچی کے والد نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پر معاملے کی چھان بین کی ہے اور انھیں پتہ چلا ہے کہ یہ کیس جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔
بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا تھا۔
طیبہ کی ماں ہونے کی 2 دعویدار خواتین کا ڈی این اے ٹیسٹ
سپریم کورٹ میں طیبہ کی والدہ ہونے کی دعویدار 2 خواتین بھی پیش ہوئیں، جو بعدازاں عدالت عظمیٰ کے حکم پر ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) آئیں۔
دونوں خواتین کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور ان کے نام فرزانہ اور کوثر ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ دونوں خواتین نے اپنی بچی کا الگ الگ نام بتایا، فرزانہ کے مطابق ان کی بیٹی کا نام آمنہ ہے جبکہ کوثر اپنی بیٹی کا نام ثناء بتاتی ہے۔
فرزانہ اپنے شوہر ظفر اور کوثر اپنی بیٹی مہوش (طیبہ کی مبینہ بہن) کے ہمراہ اسلام آباد آئیں، جہاں پمز میں ان چاروں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے نمونے لیے گئے۔
پمز ہسپتال میں طیبہ کا پہلے بھی طبی معائنہ کیا گیا تھا، ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ دیکھیں گے کہ اگر ان کے پاس خون وغیرہ کے کچھ ایسے نمونے ہوئے، جن سے ڈی این اے کیا جاسکتا ہے تو وہ بچی کے مبینہ والدین کے ڈی این اے کے نمونوں سے میچ کرکے دیکھیں گے کہ اس کا اصل وارث کون ہے۔
دوسری صورت میں طیبہ کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے دوبارہ آنے پڑے گا۔
علاوہ ازیں طیبہ کو ضلعی انتظامیہ کی ہدایات پر بنائے گئے خصوصی بورڈ کے سامنے بھی آج 11 بجے پیش ہونا تھا لیکن پولیس بچی کو پیش نہ کرسکی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل طیبہ کے والد ہونے کے دعویدار اعظم نامی جس شخص نے عدالت کے سامنے پیش ہوکر جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کرنے کا دعویٰ کیا تھا، وہ منظر عام سے غائب ہے۔
اعظم اور ان کی اہلیہ نصرت کا تعلق جڑانوالہ سے تھا اور پولیس ان کی تلاش میں چھاپے مار رہی ہے۔