نقطہ نظر

جب گجرانوالہ میں گرو نانک اور بابر کی ملاقات ہوئی

محمد بن قاسم،محمود غزنوی جیسےحملہ آوروں کی طرح بابر بھی مسلم قوم پرستی کی پہچان بن گئے جو پاکستان کے قیام کا باعث بنی.

میں اس وقت گردوارے کی چوکھٹ پر کھڑا ہوں۔ اس کے دروازے پر لکڑی کی ایک تختی آویزاں ہے جس پر لکھا ہے کہ یہ گردوارا چکی صاحب، ایمن آباد ہے۔ اس عبادت گاہ کا دروازہ لاک ہے جبکہ سکھ مت کا نمائندہ جھنڈا، نشان صاحب اس کے صحن میں نصب ایک اونچے بانس پر لہرا رہا ہے۔

جی ٹی روڈ سے قریب واقع ایمن آباد شہر اپنے اندر بے شمار تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ کئی مندروں کی عمارتیں، جو کہ اب گھروں میں تبدیل ہو گئی ہیں، دیگر گھروں کے درمیان آب و تاب سے اپنی بلندیوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ماضی میں شہر میں مقیم امرا کی عالیشان حویلیوں اور محلات کے آثار جگہ جگہ پھیلے ہیں۔

ان میں سے ایک حویلی ملک بھاگو کی ہے، جو ایک بدعنوان رئیس زادہ تھا۔ اس کی سکھ مت کے بانی گرو نانک نے شہر کے اپنے دورے کے دوران سرزنش بھی کی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ بھاگو نے اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر پجاریوں اور برہمنوں کے لیے ایک شاندار دعوت کا بندوبست کیا تھا مگر گرو نانک نے اس دعوت کو مسترد کر کے بھائی لالو نامی ایک بڑھئی کے گھر پر کھانا کھانے کو ترجیح دی۔ شدید غصے کے عالم میں بھاگو نے نانک کو اپنے محل میں طلب کیا اور ان سے دعوت مسترد کرنے کی وجہ پوچھی۔

گرو نے بھاگو کے دسترخوان سے روٹی اٹھائی اور جب اسے نچوڑا تو اس میں سے خون رسنے لگا۔ جب انہوں نے بھائی لالو کے گھر سے منگوائی ہوئی روٹی کو نچوڑا تو اس میں سے دودھ رسنے لگا۔

گرو نے بتایا کہ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ بھاگو نے روٹی ناجائز طریقوں اور غریبوں کے استحصال سے حاصل کردہ پیسوں سے خریدی تھی جبکہ بھائی لالو کی روٹی ایمانداری سے کمائی ہوئی تھی۔

چند گلیاں دور ہی گردوارا بھائی لالو دی کھوئی واقع ہے جہاں کسی زمانے میں بھائی لالو کا گھر تھا اور جہاں گرو نانک اور ان کے ساتھی، بھائی مردانا نے قیام کیا تھا۔ اس گردوارے کا آہنی دروازہ بھی لاک ہے۔

فتحِ ایمن آباد

گجرانوالہ شہر کے ایک تجارتی مرکز بننے سے پہلے ایمن آباد لاہور کے مشرقی شہروں میں سے ایک سب سے اہم شہر تھا، جو لاہور اور دہلی کو پشاور کے راستے کابل سے منسلک کرنے والے راستے پر واقع تھا۔ گجرانوالہ کے ابھرنے کے ساتھ ہی ایمن آباد ایک چھوٹا شہر بن کر رہ گیا۔

سولہویں صدی کے ابتدائی عرصے میں کسی نئے خطے پر قبضہ کرنے کی تلاش میں مغل سلطنت کے بانی بابر چناب ندی، جو ہندوستان کے مختلف حصوں اور پنجاب (موجودہ پاکستان میں) سے بہتی ہے، کو پار کرتے آگے بڑھے۔ وہ ایک بڑے شہر پر حملہ آور ہوئے اور ان کی فوجوں نے وہاں زبردست دہشت قائم کردی۔ ہزاروں کو قتل جبکہ سینکڑوں کو قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔

اُس شہر کا نام سعید پور تھا مگر بعد میں اس شہر کے نئے بادشاہ کے احکامات پر یہ نام بدل کر ایمن آباد رکھ دیا گیا تھا۔ نانک سے منسلک روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب بابر نے اس شہر پر قبضہ کیا تھا تب وہ سعید پور میں تھے۔ دیگر شہریوں کی ہی طرح انہیں بھی قید خانے میں ڈالا گیا تھا اور پتھر کی چکی پیسنے پر مجبور کیا گیا۔

اس کہانی سے جڑی چند روایات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گرو نانک نے پتھر کی چکی کو چلانے کے لیے اپنے ہاتھوں کو استعمال کرنے کے بجائے اپنی طلسماتی طاقتوں کا استعمال کیا تھا۔

یہ بھی کسی ستم ظریفی سے کم نہیں کیوں کہ گرو نانک اپنی شاعری میں جادو پر توہم پرستانہ یقین کی شدید مخالفت کر چکے ہیں۔

جب قید خانے کے محافظوں نے نانک کے مبینہ جادو کا نظارہ دیکھا تو انہوں نے بابر کو جا کر اس کی اطلاع دی، جس پر بابر نے سکھ گرو کو اپنے دربار میں طلب کیا اور مستقبل میں کامیابی کی دعائیں طلب کیں۔

گرو نانک نے اس شہر جہاں وہ رہتے تھے، پر حملہ کرنے کے بعد ان کی دعائیں طلب کرنے کی جرات پر حیران ہو کر مغل بادشاہ کو دعائیں دینے سے انکار کر دیا۔ تاہم گرو نانک کی دعاؤں کے بغیر بھی بابر اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھنے اور مغل سلطنت کو توسیع دینے میں کامیاب رہا۔

آج گردوارا چکی صاحب اسی جگہ پر قائم ہے جہاں گرو نانک قید تھے اور جہاں انہوں نے اس ’جادوئی عمل’ کا مظاہرہ کیا تھا۔

شہنشاہ کے نقوش

گرو نانک اور بابر کی ملاقات کے قریب 500 برس بعد بھی ہندوستان اور پاکستان مغل شہنشاہ کے بارے میں مخالف نظریات رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں موجود ہندو قوم پرستوں کے لیے بابر ایک استحصالی شہنشاہ تھا جس نے ان کی سرزمین پر قبضہ کیا، مذہبی آزادی چھین لی اور ان کی روایات پر پابندی لگائی۔

چند ہندوؤں کے نزدیک ایودھیا، اتر پردیش میں رام جنم بھومی یا دیوتا رام کی جائے پیدائش سے منسوب عمارت کو تباہ کرنے کے بعد اسی جگہ پر بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی۔

6 دسمبر 1992 کو ہندو کار سیوکوں کے ایک گروہ کی جانب سے عمارت کو مسمار کرنے کا واقعہ ہندوستان کی ماضی قریب کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم واقعے کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں پورے ملک میں مذہبی فسادات پھوٹ پڑے۔

اس کے برعکس پاکستان نے 1992 کے بعد اور بھی زیادہ خود سے منسوب کرنا شروع کر دیا۔ یہ ریاست کے تاریخی فریم ورک کی تشکیل اور ہندو تہذیب پر مسلم کلچر کی برتری کے اظہار کے لیے بھی موزوں رہا۔

محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور محمد غوری جیسے حملہ آوروں کی ہی طرح بابر بھی مسلم قوم پرستی کی پہچان بن گئے جو پھر پاکستان کے قیام کا باعث بنی۔

ملک کے اندر مختلف شہروں کی کئی سڑکوں اور چوراہوں کے نام پہلے مغل شہنشاہ کے نام سے منسوب ہیں۔ حتیٰ کہ ریاست نے اپنے ایک میزائل کا نام بھی ان کے نام پر رکھا ہے، اور چند ہفتے قبل ہی پاکستان نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے سب سونک کروز بابر میزائل کا تجربہ بھی کیا ہے۔

اب جبکہ دونوں ہی ریاستیں بابر کو اپنے اپنے بیانیوں کے لحاظ سے پیش کرتی ہیں، مگر میں اس حوالے سے گرو نانک سے سننا چاہتا ہوں کہ وہ اس حملہ آور کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں۔

ان کی نظم 'بابر بنی'، جو سکھ مت کے مرکزی پاک کلام اور اس کے 11 ویں اور لازوال گرو، گرو گرنتھ صاحب میں شامل ہے، میں بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ اس شہنشاہ کے ہاتھوں ایمن آباد کی تباہی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں:


گناہوں کی بارات کے ساتھ

بابر نے کابل سے حملہ کیا ہے

اے لالو، اب وہ شادی کے تحفے میں ہماری زمین چاہتا ہے

قاضی اور برہمن کا کردار ان سے چھین لیا گیا ہے

لالو، شادی کی رسومات اب شیطان کے ہاتھ میں ہیں

اے نانک، قتل و غارت کے ٹپے گائے جا رہے ہیں

اے لالو، زعفران کے بجائے خون چھڑکا جا رہا ہے


نظم میں بیان ہے کہ بابر کی فوجیں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تمیز نہیں کرتیں اور دونوں ہی اس کے قہر کا شکار ہیں، جسے گرو نانک طنزیہ طور پر خدا کا ’انصاف‘ کہتے ہیں۔

گرو نانک کے نزدیک بابر ہندو کلچر کو تباہ کرنے والا ایک مسلمان شہنشاہ نہیں تھا اور نہ ہی ایک اسلامی قوم پرست تھا جو زمین پر اپنا دین پھیلانا چاہتا تھا۔

وہ محض اپنی لالچ اور شان و شوکت کے ہاتھوں مجبور ایک بادشاہ تھا، پھر اس کے راستے میں چاہے کسی بھی مذہب کا شخص آیا، وہ روند دیا گیا۔

انگلش میں پڑھیں


یہ مضمون ابتدائی طور پر اسکرول ڈاٹ ان پر شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

ہارون خالد

ہارون خالد لمز سے اینتھروپولوجی میں فارغ التحصیل ہیں۔ وہ پاکستان بھر میں سفر کرتے ہیں اور تاریخی اور ثقافتی ورثے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ وہ دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔