سندھ کا سیاحتی اثاثوں پر اختیار دینے کا مطالبہ
کراچی: سندھ حکومت نے پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کو تحلیل کرنے کے وزیراعظم کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا حکم آئین کی جگہ نہیں لے سکتا۔
صوبائی انتظامیہ نے ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ انھیں وزارت سیاحت اور آثار قدیمہ کے تحت آنے والے تمام اثاثوں کا مکمل کنٹرول دیا جائے۔
سندھ حکومت کی جانب سے اسلام آباد کو بھیجے گئے ایک اعلامیے میں متنازع مسئلے کے حوالے سے 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو دیے گئے اختیارات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'پی ٹی ڈی سی کے معاملے پر فیصلہ نفاذ کمیشن کے آئینی ادارے نے کرنا ہے اور یہ وزیراعظم پاکستان کے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے منسوخ نہیں کیا جاسکتا'۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ '18ویں آئینی ترمیم کے مطابق نفاذ کمیشن کے فیصلے کے مطابق وفاقی وزارت آثار قدیمہ اور سیاحت کے تحت کام کرنے والے تمام ادارے سندھ حکومت کے حوالے کردیے جائیں گے'۔
اس میں کہا گیا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد سیاحت کی وزارت تحلیل ہوگئی ہے اور سیاحت اب ایک صوبائی معاملہ ہے جبکہ اسلام آباد پہلے ہی پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ٹورازم اینڈ ہوٹل میجمنٹ (پی آئی ٹی ایچ ایم) اور کراچی کا ڈپارٹمنٹ آف ٹورازم سروسز (ڈی ٹی ایس) سندھ حکومت کی وزارت سیاحت کے حوالے کرچکا ہے۔
جبکہ مرکزی آثار قدیمہ کی لیبارٹری، پاکستان کلچر اینڈ آرٹس فاؤنڈیشن ریلیف فنڈ اور میوزیم معاوضہ فنڈ یہ تمام وہ ادارے ہیں جو سندھ حکومت کے حوالے نہیں کیے گئے۔
اس کے علاوہ پی ٹی ڈی سی کے 4 اثاثے سندھ حکومت کے حوالے کیے جانے ہیں جن میں کراچی میں ہاکس بے پر قائم ہوٹل، ٹھٹھہ میں موجود سیاحوں کی معلومات کا مرکز، موہن جو دڑو میں قائم ہوٹل اور سیاحوں کی معلومات کا مرکز، اور سکھر میں موجود 23 کینال کی اراضی شامل ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ آئین میں ہونے والی اہم ترمیم کے تحت وفاقی حکومت نے اپریل 2011 میں 5 وزارتوں کو ختم کردیا تھا، جن میں ثقافت، تعلیم، لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ، سماجی بہبود اور خصوصی تعلیم، اور سیاحت شامل ہیں۔
تاہم ان وزارتوں اور ڈویژنز کے کچھ شعبے اب بھی وفاق کے انتظام میں ہیں اور انھیں منتقل کیا جانا باقی ہے، اسلام آباد کے زیر استعمال ایسے 35 شعبے ہیں جن کو کابینہ ڈویژن منتقل کردیا گیا تھا۔
تاہم، تقریبا تمام اہم شعبے اور اثاثے صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔
دوسرے جانب سندھ حکومت، وفاقی حکومت کے دعوی پر رعایت لینا چاہتی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی ڈی سی کی صوبوں کو منتقلی بعض "غلط فہمیاں" پیدا کررہی ہے جس کے باعث وہ اس کے انتظام، اثاثوں اور املاک پر کنٹرول کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔
ماضی میں وفاقی حکومت نے وزیراعظم کے حوالے سے جاری ایک اعلامیے کے ذریعے کراچی کو آگاہ کیا تھا کہ 'پی ٹی ڈی سی کا ادارہ کمپنیز آرڈینس 1984 کے تحت ایک پبلک لمیٹڈ کارپوریشن کی شکل میں وجود میں آیا تھا اور اسے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت تحلیل کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم نے پی ٹی ڈی سی کو اس کے کارپوریٹ حیثیت میں رکھتے ہوئے تحلیل کرنے کیلئے جانچ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
جس پر اسلام آباد میں موجود بیوروکریسی نے وفاقی حکومت کو تجویز پیش کی کہ ادارے کے بورڈ آف ڈاریکٹریٹ کی جانب سے قرار داد منظور کیے جانے کی صورت میں پی ٹی ڈی سی کو کارپوریٹ کی حیثیت میں کام جاری رکھنے میں 'کافی قانونی خلاء' موجود ہے اور پی ٹی ڈی سی کے وفاقی کارپوریٹ کی حیثیت اور اپنے اثاثوں کا انتظام دیکھنے کیلئے اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جاسکتا ہے۔
اسلام آباد میں موجود حکام کا کہنا ہے کہ صوبوں کی جانب سے کیا جانے والا دعویٰ خاص طور پر سندھ اور خیبرپختونخوا کے دعوؤں کو نہیں مانا جاسکتا جب تک وزیراعظم اس کا فیصلہ نہ کردیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کی جانب سے صوبے میں موجود پی ٹی ڈی سی کے ہوٹلوں پر زبردستی قبضے کی کوشش کی گئی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔
اسلام آباد سے سندھ کے لیے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ 'اس معاملے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنچ کیا گیا اور ساتھ ہی دیگر صوبوں گلگت بلتستان اور آزاد جموں اور کشمیر نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیے'۔
سندھ حکومت کے حکام کا کہنا تھا کہ تاہم وزیراعظم کی جانب سے جاری کیا جانے والا ایگزیکٹو آرڈر آئین کی جگہ نہیں لے سکتا۔
سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'ہم وفاقی حکومت کی جانب سے اختیار کیے جانے والے حربوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھے گے جن کا مقصد آئین کے اختیارات کے ذریعے صوبوں کو دیے گئے کنٹرول کی مزاحمت کرنا ہے'۔