رنگ برنگی کرسیاں بنانے والے بچوں کی بے رنگ زندگی
سخت محنت کے باوجود انہیں انتہائی معمولی اجرت ملتی ہے، جو کہ ان کے گھرانوں کی غربت ختم کرنے میں مددگار نہیں ہے۔
"تم اسکول جانے کے بجائے یہاں کیوں کام کرتے ہو؟"
"اگر میں کام نہیں کروں گا اور پیسے نہیں کماؤں گا تو میرے گھر والے کھانا کہاں سے کھائیں گے؟" 12 سالہ عبدالحمید نے تیزی سے انگلیاں چلاتے ہوئے میرے سوال کا جواب دیا۔
عبدالحمید کا تعلق سندھ کے ضلع خیرپور کی ایک تحصیل سے ہے، اور وہ اپنی عمر کے کئی دیگر بچوں کی طرح دستکار ہے۔
کام کی وجہ سے اس کے دن کا آغاز اسکول جانے والے بچوں کے دن سے کہیں پہلے ہوتا ہے۔ وہ ایک مقامی دکان پر جاتا ہے، سورج غروب ہونے تک کام کرتا ہے، اور اسے سارے دن میں اسٹول جیسی کرسیاں، جنہیں سندھی میں موڑھا کہا جاتا ہے، بنانے کے لیے سو روپے دیے جاتے ہیں۔ یہ کرسیاں بانس کی باریک ڈنڈیوں سے بنائی جاتی ہیں۔