پاکستان

ترقیاتی اسکیموں کیلئے صرف 35 فیصد فنڈز کا اجراء

رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے320 ارب روپے مختص کیے گئے تھےتاہم 279 ارب روپے جاری کیے گئے، رپورٹ

اسلام آباد: حکومت نے رواں مالی سال کے دوران ترقیاتی منصوبوں کیلئے 800 ارب روپے مختص کئے تھے تاہم مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں صرف 279 ارب روپے جاری کیے گئے جو مجموعی رقم کا 35 فیصد ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی کی جانب سے اس اعلان کے باوجود کہ ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہے، رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں توانائی کی اسکیموں کیلئے صرف 12 فیصد فنڈز ہی فراہم کیے جاسکے جبکہ صرف گذشتہ ماہ دسمبر میں اس رقم میں اضافہ کیا گیا اور اسے 31.5 فیصد تک پہنچادیا گیا۔

پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 23 دسمبر تک پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کیلئے مجموعی طور پر 279 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں جبکہ منظور شدہ ادائیگی کے طریقہ کار کے مطابق کمیشن کو اس عرصے میں کم سے کم 320 ارب روپے جاری کرنے چاہیے تھے۔

حکام کے مطابق تاہم مذکورہ عرصے میں ریونیو میں مجموعی کمی کے باعث ترقیاتی منصوبوں کیلئے مطلوبہ رقم جاری نہ کی جاسکی۔

مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں حکومت نے توانائی کے منصوبوں کیلئے صرف 15.7 ارب روپے جاری کیے تھے جو کہ دسمبر میں بڑھ کہ 41.3 ارب روپے ہوگئی جبکہ اس کیلئے 130 ارب روپے مختص تھے۔

تاہم حکومت کی جانب سے پانی کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے صرف 6.8 ارب روپے جاری کیے گئے جبکہ اس کی مختص رقم 31.7 ارب روپے تھی۔

خیال رہے کہ حکومت کے ادائیگیوں کے منظور شدہ نظام کے تحت مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں مجموعی طور پر 40 فیصد جبکہ باقی کے 6 ماہ میں مجموعی طور پر 60 فیصد فنڈز جاری کیے جانے تھے۔

منظور شدہ طریقہ کار کے مطابق حکومت کو توانائی کے شعبے کیلئے مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں 52 ارب روپے جاری کرنا تھے تاہم حکومت نے 41 ارب روپے جاری کیے۔

اس کے ساتھ ہی پانی کے شعبے کیلئے حکومت کو مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں 12.7 ارب روپے جاری کرنا تھے تاہم اس نے 6.8 ارب روپے جاری کیے۔

ادائیگیوں میں کمی کی وجہ سے توانائی اور پانی کے شعبوں کے حوالے سے جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مشکلات پیش آئیں اس کے باوجود کہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ انھیں سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔

پاکستان اور چین اقتصادی راہداری کے مرکزی حصے نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں 80 ارب روپے وصول کیے جبکہ اس کیلئے اس عرصے میں 188 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

منصوبہ بندی کمیشن کا کہنا تھا کہ انھوں نے سول ایویشن اتھارٹی (سی اے اے) کیلئے 8.3 ارب روپے جاری کیے جبکہ اس کیلئے مختص رقم 14.7 ارب روپے تھی تاہم کابینہ ڈویژن کو مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں 20 کروڑ اور 80 لاکھ روپے جاری کیے گئے جبکہ ان کیلئے اس عرصے میں مختص رقم 36 کروڑ اور 90 لاکھ روپے تھی۔

کیپٹل ایڈمنسٹریشن ڈویژن کیلئے رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں مختص رقم 2.56 ارب روپے تھی جگہ اس کیلئے 84 کروڑ 40 لاکھ روپے جاری کیے گئے، اس کے باوجود کہ پاکستان کا محکمہ موسمیات مناسب موسمی پیش گوئی کرنے کیلئے اپنے ریڈار کے نظام میں تبدیلیوں کیلئے جدوجہد کررہا ہے موسمیاتی تبدیلی ڈویژن کیلئے مختص 1.2 ارب روپے کی جگہ ادارے کو 10 کروڑ روپے فراہم کیے گئے۔

وزارت تجارت کو رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں مجموعی طور پر 78 کروڑ روپے فراہم کیے گئے جبکہ ان کیلئے 79 کروڑ 60 لاکھ کی رقم مختص تھی، وزارت مواصلات کیلئے 11 کروڑ 40 لاکھ روپے جاری کیے گئے اور ان کیلئے 5.3 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

اسی طرح وزارت دفاع نے 19 کروڑ 40 لاکھ روپے وصول کیے جبکہ ان کیلئے 2.5 ارب روپے مختص کیے گئے تھے اور دفاعی پیداوار ڈویژن کیلئے 46 کروڑ 20 لاکھ روپے جاری کیے گئے جبکہ ان کیلئے 2.2 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

دوسری جانب وفاقی وزارت تعلیم اور ٹریننگ نے 51 کروڑ 20 لاکھ روپے وصول کیے جبکہ انھیں 2.2 ارب روپے ادا کیے جانے تھے۔

وزارت خزانہ کو رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں 1.16 ارب روپے جاری کیے گئے جبکہ انھیں 9.43 ارب روپے جاری کیے جانے تھے، وزارت خارجہ کو رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں کوئی رقم نہیں دی گئی جبکہ انھیں رواں سال میں 55 کروڑ روپے ادا کیے جانے ہیں۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 8.6 ارب روپے وصول کیے جبکہ ان کیلئے 21.5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی اور انسانی حقوق ڈویژن نے 80 لاکھ روپے وصول کیے جبکہ انھیں 17 کروڑ روپے ادا کیے جانے تھے۔

وزارت داخلہ کو 4.7 ارب روپے ادا کیے گئے جبکہ انھیں 11.56 ارب روپے ادا کیے جانے تھے۔

رپورٹ کے مطابق پورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت نے 83 کروڑ 60 لاکھ روپے وصول کیے جبکہ ان کیلئے 12 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی، اسی طرح پاکستان ریلوے نے رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں 14 ارب روپے وصول کیے جبکہ انھیں 41 ارب روپے دیے جانے تھے۔

یہ رپورٹ 4 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی