بچپن میں ہر جمعہ میرے لیے عذاب کا دن کیوں تھا؟
مسلسل تین سالوں تک ہر جمعے کو یہی ماجرا ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں جب میں چوتھی جماعت کی طالبہ تھی تب میری کلاس کے دیگر طلبہ جمعہ کے دن ہفتے کی چھٹیوں کو لے کر خوشی سے سرشار ہوتے، مگر میرے لیے یہ دن عذاب کا دوسرا نام ہوتا۔
اس دن میں گھر دیر سے لوٹنے کی ہر ممکن کوشش کرتی۔ کبھی کبھار میں اسکول سے سب سے آخر میں گھر لوٹتی، یہاں تک کہ اسٹاف ممبران کے بعد گھر جاتی۔ گھر اپنے والدین کو فون کر کے کہتی کہ اسکول کا تھوڑا اضافی کام ہے تا کہ ابو دیر سے مجھے لینے آئیں۔
ہر جمعے کو اسکول سے گھر لوٹنے کے ساتھ ہی میرے ابو مجھے اپنے کمرے میں بند کر دیتے اور بیدردی سے مارا کرتے۔ وہ مجھے رونے بھی نہیں دیتے تھے۔ اگر روتی تو اور بھی زور سے مار پڑتی۔
میری امی اور بہنیں ابو کو یہ کہتے ہوئے قابو کرنے کی کوشش کرتیں کہ ’وہ ابھی چھوٹی بچی ہے‘، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ وہ جیسے ہی مجھے مارنے آتے، ویسے ہی بند دروازے کی دوسری جانب سے امی اور بہنیں زور زور سے دروازہ بجاتیں۔ شدید تشدد کر کے بس کرتے تو دروازہ کھول دیتے اور میری امی روتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتیں اور مجھے زمین پر گرا پاتیں۔ ایسا لگتا کہ جیسے وہ بھی اسی کرب سے گزر رہی ہیں جس تکلیف سے میں گزر رہی تھی۔
وہ مجھے اپنی بانہوں میں بھرتیں۔ میں ان سے پوچھتی، ’وہ مجھے کیوں اتنی بے دردی سے مارتے ہیں؟’ ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ ہوتا، مگر وہ بارہا مجھے یقین دلاتیں کہ اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔
میں ارد گرد موجود ٹیبل، ریلنگ یا پھر کسی بھی چیز کا سہارے لے کر لڑکھڑاتے ہوئے دروازے تک پہنچتی۔
اس مار پیٹ کے بعد پیر کو اسکول واپس جانے سے پہلے میرے پاس اپنے زخموں کو بھرنے کے لیے صرف دو دن ہوتے۔
میں اپنے بستر پر گھنٹوں تک روتی رہتی، اور کسی سے بات نہ کرتی۔ میری امی جب مجھے دیکھنے میرے کمرے میں آتیں تو میں سونے کا بہانہ کر لیتی تا کہ ان سے بات نہ کرنی پڑے۔ وہ میرے بستر پر میرے پاس بیٹھ جاتیں اور میرے زخموں پر اپنا ہاتھ پھیرتی رہتیں کہ جیسے ان میں کوئی طلسماتی قوت ہو اور اس طرح میرے سارے زخم جادو سے ٹھیک ہو جائیں گے۔
اسکول میں میں ہنسی مذاق کرتی اور اپنے دوستوں کے ساتھ بالکل نارمل رہتی اور ایسا محسوس کرواتی کہ جیسے میرے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا۔
ایک بار میرے ابو نے اپنے کیے پرمجھ سے معافی مانگی۔ پہلے تو معاف کرنا نہ چاہا مگر پھر انہیں معاف کر دیا اور دل کو تسلی ملی کہ آخر کار اب وہ اس مار پیٹ کا سلسلہ بند کر دیں گے۔ مگر وحشیانہ تشدد کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے دوسری بار معافی مانگ لی اور میں نے انہیں دوسری بار بھی معاف کر دیا۔ مگر پھر میں جلد ہی سمجھ گئی تھی کہ ایسا کرنا ان کی محض ایک عادت بن گئی تھی۔
جلد ہی جو کچھ بھی ہو رہا تھا، انہوں نے اسے جھٹلانا شروع کر دیا۔ ہر بار ان سے مار کھانے کے بعد میں انہیں نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی، جس پر وہ مجھ سے پوچھتے کہ میں ان سے بات کیوں نہیں کر رہی۔
مجھے بتایا گیا کہ ان کا بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے اور اسی لیے انہیں کسی نہ کسی پر اپنا غصہ نکالنا ہوتا ہے، مطلب یہ کہ اس طرح بچے پر تشدد کرنے میں وہ حق بجانب تھے۔ میں یہ بھی سوچتی کہ وہ دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ میں ہی کیوں؟
ایک بار جب میں پانچویں کلاس میں تھی تب میرے زخم زیادہ گہرے تھے اور دو دن میں ٹھیک نہیں ہو پائے تھے۔ اگلی صبح میرا اسکول تھا اور اسی لیے میرے پاس 54 ڈگری گرمی میں بھی پوری آستینوں کی شرٹ پہننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔
میرے گھر والوں نے اس تشدد کے بارے میں کسی کو بھی بتانے سے خبردار کیا ہوا تھا۔ جب میری ایک کلاس فیلو نے میرے زخم دیکھے اور وجہ پوچھی تو میں نے اسے بتایا کہ میری گاڑی سے ٹکر ہوئی ہے۔
ایسا پہلی بار تھا کہ کسی نے میرے زخم دیکھے تھے، مگر چوں کہ مار پیٹ کا یہ سلسلہ جاری رہا، لہٰذا اپنے جسم پر زخموں کے نشانوں کو چھپانا بھی بہت مشکل ہو گیا تھا۔ میرے ہم جماعت ان زخموں کی وجہ پوچھتے رہے، میں نے ان میں سے ایک لڑکی کو سچ بتا دیا۔ اس لڑکی نے مجھے ٹیچر کے پاس جانے کا مشورہ دیا مگر میں بہت ڈری ہوئی تھی کہ اگر اس بات کا ابو کو پتہ چل گیا تو معاملات اور بھی بدتر ہو جائیں گے۔
چند ہفتوں کے بعد میرے اسکول کونسلر نے مجھ سے پوچھا کہ گھر میں سب ٹھیک ہے۔ میں نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا، مگر وہ جان گئی تھیں کہ میں اپنے آنسوؤں کو بمشکل ضبط کر رہی تھی۔ میں نے حقیقت بیان کر دی مگر میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اس بارے میں میری کوئی مدد نہیں کر پائیں گی۔
اسکول کے گزرتے ہر سال کے آخر میں بچے موسم سرما کی چھٹیوں کا بے قراری کے ساتھ دن گن گن کر انتظار کرتے اور دوسری طرف میں اپنی کرسی پر بیٹھ کر روتی رہتی۔
میری چھٹیوں کی شروعات کچھ الگ ہی انداز میں ہوا کرتی تھی۔ ہم جیسے ہی گھر پہنچتے تو میرے ابو مجھے سیدھا ان کے کمرے میں چلنے کا کہتے۔ کمرے میں جانے سے پہلے میں ان کی تین فٹ لمبی چھڑی جس سے وہ مجھے مارا پیٹا کرتے تھے، چھپانے کی کوشش کرتی تھی۔ مگر جب چھڑی نہیں مل پاتی تو وہ مجھے لوہے یا پلاسٹک کے ہینگر، یا امی کی سینڈل سے مارا کرتے۔ وہ ان چیزوں کو سیدھا میرے سر پر مارتے۔
تین سال بعد انہوں نے اچانک یہ سلسلہ بند کر دیا۔ مجھے نہیں معلوم کیوں۔ کیا وہ مجھے مار مار کر تھک چکے تھے یا کوئی اور بات تھی؟ مجھے اس کی وجہ کبھی معلوم نہ ہوئی۔
آخری بار مار کھائے اب 7 برس گزر چکے ہیں مگر اب میرا ابو کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ایک خوف کا تعلق قائم رہے گا۔ مجھے اب بھی ان سے ڈر لگتا ہے اور جب بھی وہ میرے آس پاس ہوتے ہیں تو میں ان کے سامنے نہ کچھ ایسا کہتی ہوں نہ کوئی کام کرتی ہوں جو ان کے اندر وہی شدید جذبات ابھارنے کا باعث بنیں۔
زخم تو بھلے ہی بھر چکے ہوں مگر درد اب بھی باقی ہے۔ ابو نے کسی ایسے انسان پر ہاتھ اٹھایا تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ وہ ان سے پیار کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے مجھے دوبارہ کسی کی شفقت اور پیار ملنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔
کیا آپ بھی بچپن میں ایسی صورتحال سے گزر چکے ہیں، یا کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو یہ سب جھیل چکا ہو؟ اپنا مضمون ہمیں اسی فارمیٹ میں blog@dawn.com پر ای میل کیجیے۔