سندھ کی جیلوں میں قید 300عسکریت پسندوں کی ذہنی تربیت کا فیصلہ
کراچی: سندھ پولیس کا محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) ماہر نفسیات کی مدد سے صوبے کی مختلف جیلوں میں قید 300 عسکریت پسندوں کی بحالی اور ذہنی تربیت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے پیش کردہ اس منصوبے کے تحت زیر حراست عسکریت پسندوں کی نفسیاتی جانچ کی جائے گی جس سے ان کے عسکریت پسند ہونے کے ممکنہ عوامل کا اندازہ لگا کر ان کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جاسکیں گے۔
اس حوالے سے سی ٹی ڈی سندھ پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی سندھ نے گرفتار عسکریت پسندوں کی نفسیاتی پروفائل تیار کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی سندھ کے ایک یونٹ کو اس مقصد کے لیے تعینات کیا جاچکا ہے کہ وہ نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا) کے طے شدہ پروفارما کے تحت زیر حراست عسکریت پسندوں کی پروفائل تیار کریں تاکہ نوجوانوں کو بنیاد پرستی کی طرف مائل کرنے والے عوامل کا بہتر اندازہ لگایا جاسکے۔
سی ٹی ڈی سربراہ کے مطابق اس یونٹ میں 15 پولیس اہلکار شامل ہیں جو کراچی اور سندھ کے دیگر حصوں میں قید عسکریت پسندوں کے بارے میں معلومات اکھٹی کریں گے۔
ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کا کہنا تھا کہ صوبے بھر کی جیلوں میں 250 سے 300 عسکریت پسند موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: دہشت گردوں کا 'مخبر' پولیس اہلکار گرفتار
سی ٹی ڈی پولیس کی جانب سے جامعہ کراچی یا کسی اور تعلیمی ادارے کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جانے کی بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ ماہر سائیکالوجسٹس مستقبل میں اہم مشتبہ افراد کی ذہنی جانچ کرکے ان کی پروفائلز تیار کرسکیں۔
اس پروگرام کا مقصد لوگوں میں عسکریت پسندی کے رجحان کا باعث بننے والے نفسیاتی عوامل کی نشاندہی اور ان پروفائلز کی مدد سے سندھ میں بحالی کے پروگرام کا آغاز ہے۔
بعد ازاں، ممکنہ طور پر کراچی کے رزاق آباد پولیس اسٹیشن میں ان افراد کی ذہنی تربیت اور بحالی کے لیے مرکز قائم کیا جائے گا جہاں اس مقصد کے لیے انسداد دہشت گردی یونیورسٹی بنانے کا بھی منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔
گرفتار عسکریت پسندوں سے چند سوالات کیے جائیں گے جس سے ان کے عسکریت پسندی کی جانب رجحان کے عوامل کا تعین کیا جاسکے۔
اس سلسلے میں چند سوالات، جیسے کہ انہیں اپنے اہل خانہ یا کسی اور کی جانب سے جسمانی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا، دھمکایا گیا، ستایا گیا، کوئی ذاتی نقصان ہوا، مالی مشکلات اور پروفورما میں شامل کچھ مزید سوالوں کی مدد سے یہ جانچ مکمل کی جائے گی۔
اس سے قبل جنوری 2016 میں بھی سی ٹی ڈی نے کراچی میں اہل خانہ اور ماہر نفسیات کی مدد سے داعش سے متاثرہ دو عسکریت پسندوں کی ذہنی تربیت اور بحالی کا کام مکمل کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 'داعش سے متاثر 25 عسکریت پسند کراچی میں فعال'
داعش سے متاثر ان دو نوجوانوں کو ایران سے پکڑ کر اس وقت پاکستان واپس بھیجا گیا جب وہ عسکری گروہ میں شمولیت کے لیے غیر قانونی طور پر شام جانے کی کوشش میں تھے۔
حکام کا دعویٰ تھا کہ اہل خانہ اور سیکیورٹی انتظامیہ کی مدد سے ان دونوں نوجوانوں کو بحالی کے بعد مسلح جدوجہد کے رجحان سے دور کردیا گیا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے آفیشل انچارج راجا عمر خطاب کے مطابق ان نوجوانوں کا معائنہ کرنے والے ماہر نفسیات کا بتانا ہے کہ دونوں لڑکوں میں اب کسی قسم کے عسکری رجحانات باقی نہیں رہے ہیں تاہم وہ اب بھی زیر نگرانی ہیں۔
کراچی کے متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں کو ایرانی حکام کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں کوئٹہ پولیس اور پھر سی ٹی ڈی کراچی کے حوالے کردیا گیا۔
دونوں نوجوان جن کی شناخت جاری نہیں کی گئی، ان کا کوئی جہادی پس منظر نہیں اور یہ بذریعہ سوشل میڈیا داعش سے رابطے میں آئے تھے۔
یہ خبر 2 جنوری 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی