دنیا

جانتا تھا پیوٹن بہت ذہین ہیں ، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ موخر کرنے پر امریکی نو منتخب صدر روسی صدر کی ذہانت کے قائل ہوگئے۔

فلوریڈا: نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے امریکی انتخابات میں ہیکنگ اور جاسوسی کے تنازعات پر امریکا کے خلاف جوابی کارروائی سے گریز کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک اور فیصلے سے واشنگٹن اور ماسکو کے تعلقات خراب ہوئے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا تھا کہ وہ امریکی کارروائی کے جواب میں روس سے امریکا کے 35 سفارت کاروں کو کم سے کم اس وقت تک نہیں نکالیں گے جب تک ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو عہدہ نہیں سنبھال لیتے۔

اس سے پہلے براک اوباما نے امریکی انتخابات میں ہیکنگ کے الزامات سامنے آنے کے بعد روس کے 35 سفارت کاروں کو امریکا بدر کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ ’وہ ہمیشہ سے جانتے تھے کہ پیوٹن بہت ذہین ہیں‘۔

اس سے قبل امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم امریکی عہدیداروں کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اوباما انتظامیہ نے روس کی جانب سے ورمونٹ الیکٹرک سسٹم میں روسی ہیکنگ کے ایک کوڈ کی نشاندہی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’روس امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر نہیں کرے گا‘

امریکی عہدیداروں کے مطابق روس نے کوڈ کو بجلی کے آپریشنل سسٹم میں خلل ڈالنے کے لیے استعمال نہیں کیا تھا مگر روس کی قومی بجلی گرڈ تک رسائی ممکنہ طور پر سنگین خطرہ تھی۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل بھی منتخب امریکی صدر کی جانب سے کئی بار ولادیمیر پیوٹن کی تعریف کی گئی ہے جب کہ ان کی جانب سے اپنی ٹیم کےاعلیٰ عہدوں پر فائز کیے گئے لوگوں کو بھی ماسکو کے دوست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اس کے باوجود یہ واضح نہیں ہے کہ وہ براک اوباما کی جانب سے روس کے خلاف اٹھائے گئے ان اقدامات کو واپس لیں گے یا نہیں جن کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد جنگ جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

دو روز قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی(سی آئی اے) اور دیگر اداروں کی جانب سے روس کے خلاف ہیکنگ کے لگائے گئے الزامات سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے ملک کو بہتر اور بڑی چیزوں کی طرف منتقل کریں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے انٹیلی جنس اداروں کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کریں گے۔

مزید پڑھیں: روسی صدر،براک اوباما سے بہتر لیڈر ہیں: ڈونلڈ ٹرمپ

اس تناظر میں امریکی انٹیلی جنس اداروں کا کہنا ہے امریکی صدارتی انتخاب سے قبل ہی روس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے سسٹمز کو ہیک کرلیا تھا، جب کہ روس ان الزامات کی تردید کرتا ہے، امریکی انٹیلی جنس عہدیداروں کے مطابق روس کی ہیکنگ کا مقصد انتخاب میں ہلیری کلنٹن کی شکست اور ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی یقینی بنانا تھا۔

روسی عہدیداروں نے حال ہی میں اوباما انتظامیہ کی کارروائیوں کو ڈیموکریٹک پارٹی کے سبکدوش ہونے والے صدر براک اوباما کی جانب سے آخری ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دیا تھا کہ کہ وہ اقتدار میں آتے ہی ان اقدامات کو واپس لے سکتے ہیں۔

ایک سینیئر امریکی عہدیدار کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ سنبھالتے ہی براک اوباما کے احکامات واپس لے تو سکتے ہیں لیکن تاحال ایسا کرنا ناقابل یقین ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخابات میں روس کی مداخلت 'مضحکہ خیز': ٹرمپ

ادھر گزشتہ روز روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخاروا نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اوباما انتظامیہ خارجہ پالیسی سے بے خبر اور نفرت پھیلانے والا ایک گروپ ہے، نو منتخب امریکی صدر کو روس کے ساتھ رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا کرنے سے ڈونلڈ ٹرمپ کو ری پبلکن امیدواروں سمیت کانگریس میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اس سے قبل ری پبلکن سینیٹر اور سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین جان میک کین نے کیف کے دورے کے دوران یوکرین کے ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس کو ہیکنگ کی سزا ضرور ملنی چاہئیے، کیوں کہ ایک ملک پر حملہ کرنا جنگی عمل ہوتا ہے۔

جان میک کین کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ روس اس عمل کی قیمت ادا کرے اور ان کو امریکا کے بنیادی جمہوری اداروں پر حملہ نہ کرنے کا قائل کریں گے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ آنے والے دنوں میں غیر ملکی سائبر حملوں سے متعلق معاملے کی سماعت کرنے والے ہیں۔


یہ خبر یکم جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی