'چیف جسٹس کے تقرر میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں'
اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اداروں کے سیاسی مقاصد کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جج منصف ہوتا ہے, اس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی چیف جسٹس کے تقرر میں حکومت کا کوئی عمل دخل ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں نادرا ہیڈکوارٹرز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اداروں پر انگلی اٹھانا ملک کی قسمت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
سوشل میڈیا میں گردش کرنے والی تصویر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاست کے نام پر کھچڑی پکائی جارہی ہے، کوئی بھی دیکھ کر بتاسکتا ہے کہ تصویر میں صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ خیبر پختونخوا کے گورنر ظفر اقبال جھگڑا موجود ہیں، الزام تراشیاں اور باتیں صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کی جاتی ہیں تاکہ اداروں کو طیش میں لایا جاسکے۔
خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر ایک تصویر گردش زیر گردش ہے جس میں وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین کے ساتھ ایک اور شخصت موجود ہیں، جن کو سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدالتی شخصیت قرار دیا گیا تھا تاہم وہ خیبر پختونخوا کے گورنر تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے ایسی تمام باتوں کو پاکستان اور پاکستان کے آئین کے ساتھ مذاق قرار دیا۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے تقرر میں حکومت کا عمل دخل نہیں ہوتا، اسی طرح فوج کا اپنا نظام ہوتا ہے، اگر حکومت کو سیاسی فیصلہ کرنا ہوتا تو ایک درجہ سینئر جنرل کا پورا خاندان مسلم لیگی تھا، اسے لایا جاتا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا نام لیے بغیر انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کو ایسے لوگ کی ضرورت ہے جو ان کے دھرنوں کا ساتھ دیں۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فوج کا اپنا نظام ہے اور حکومت کو سیاسی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
کمیٹیوں کے قیام کا اعلان
انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں آئندہ ہفتے دو نئی کمیٹیاں بنانے کا اعلان بھی کیا، جس میں سے ایک کمیٹی خانانی اور کالیا کیس پر بنائی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا: منی لانڈرنگ کے جرم میں 4پاکستانی بلیک لسٹ
چوہدری نثار کا بتانا تھا کہ 2007-2008 میں خانانی اور کالیا کیس کا بہت سارا ریکارڈ ضائع ہوچکا ہے اور اس کیس میں کیا تفصیلات باقی ہیں اس کے بارے میں بعد میں بات کی جائے گی۔
وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق دوسری کمیٹی ایگزیکٹ کیس کی پراسیکیوشن کے لیے بنائی جائے گی کیونکہ اس سے قبل اس کیس پر کام کرنے والا سینئر افسر شدید بیمار ہے اور کیس پر دوبارہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔
'پاکستان میں صحیح کام کرنا ناممکن ہے'
وفاقی وزیر داخلہ کا بتانا تھا کہ 2011 میں بلاک شناختی کارڈز کی تعداد 26 تھی اور رواں سال 2 لاکھ 23 ہزار 512 غیر قانونی شناختی کارڈز بلاک کیے جاچکے ہیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحیح کام کرنا تقریباً ناممکن جبکہ غلط کام کرنا آسان ہے۔
مزید پڑھیں: 6 ماہ میں تمام شناختی کارڈز کی تصدیق کا اعلان
انہوں نے بتایا کہ دوبارہ تصدیق اور عوام کے فیملی چارٹ میں کسی باہر والے شخص کا اندراج چیک کرنے کے لیے 10 کروڑ 10 لاکھ شناختی کارڈ ہولڈرز کو میسج بھیجے گئے، جس میں سےعوام نے 86 ہزار 380 افراد کی نشاندہی کی جو غیر قانونی طور پر ان کے فیملی ٹری میں شامل تھے اور ان کے خاندان کا حصہ نہیں تھے۔
غیر قانونی اور جعلی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ کے استعمال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے ساتھ دوسرے ملکوں کے شہری جرم کرتے اور بدنامی پاکستان کی ہوتی رہی۔
چوہدری نثار کا مزید کہنا تھا کہ بلاک کیے جانے والے شناختی کارڈز اور پاسپورٹ میرے دور میں نہیں بنائے گئے پچھلے ادوار میں بنائے گئے تھے، ملا منصور کے شناختی کارڈ پر کیس چل رہا ہے مگر وہ شناختی کارڈ 2005 میں بنا تھا۔
خیال رہے کہ 2005 میں جنرل پرویز مشرف کے زیر سایہ پاکستان مسلم لیگ(ق) کی حکومت تھی۔
وفاقی وزیرداخلہ نے بتایا کہ ساڑھے تین سال میں ساڑھے 32 ہزار پاسپورٹ بلاک کیے گئے جو غیر ملکیوں کو جاری کیے گئے تھے۔
'کوشش ہوگی کسی کو ناجائز تکلیف نہ ہو'
ان کا کہنا تھا اس بڑی تعداد میں ایکشن لیے جانے کے سبب ممکن ہے بلاک ہونے والے شناختی کارڈز میں کئی درست افراد کے شناختی کارڈز بھی شامل ہوں لیکن انہیں بہت جلد بحال کردیا جائے گا۔
انہوں نے ہنگامی طور پر غلطی سے بلاک ہونے والے شناختی کارڈز کو بحال کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل 18 رکنی کمیٹی کا اعلان بھی کیا۔
#یہ بھی پڑھیں: شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق تکنیکی مسائل کا شکار
غلطی سے بلاک ہونے والے کارڈز کو فوری بحال کرنے کے لیے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وہ ریونیو ڈپارٹمنٹ 1978 سے پہلے کا اراضی ریکارڈ ، تصدیق شدہ ڈومیسائل ، ریونیو ڈپارٹمنٹ سے جاری تصدیق شدہ شجرہ نصب، سرکاری ملازمت کا سرٹیفکیٹ، 1978 سے قبل جاری شدہ پاسپورٹ، 1978 سے قبل باقاعدہ تصدیق شدہ تعلیمی اسناد، 1978 سے قبل جاری کوئی بھی حکومتی دستاویز دکھانے پر شہریوں کے غلطی سے بلاک کیے گئے شناختی کارڈ فوری طور پر بحال کردیا جائے گا۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ پوری کوشش ہوگی کسی کو ناجائز تکلیف نہ ہو۔
پیپلز پارٹی کے جانب سے استعفے سے متعلق پوچھے جانے والے سوال پر چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ ایک رپورٹ ہے جس کی تشہیر کی گئی، میں نے رپورٹ پہ کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا اور صرف یہ کہا تھا کہ مجھ سے پوچھے بغیر فیصلہ ہوگیا۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بلاول، آصف علی زرداری اور ایان علی پر تبصرے کے لیے میں مناسب آدمی نہیں۔