پاکستان

فوجی عدالتوں کا مستقل قیام: 'نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی'

ان عدالتوں کومستقل کرناحکومت کی جانب سےنیشنل ایکشن پلان کےاہداف حاصل کرنےمیں ناکامی کی تائیدہوگی، مولانافضل الرحمٰن

پشاور: جمعیت علماء اسلام (ف) کے چیف مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو مستقل حیثیت دینا اس بات کا تائید تصور کیا جائے گا کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

پارٹی سیکریٹریٹ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے چیف مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام ابتدائی طور پر دو سال کیلئے کیا گیا تھا لیکن انھوں نے حال ہی میں سنا ہے کہ آئین اور متعلقہ قانون میں ترمیم کے ذریعے ان عدالتوں کو مستقل حیثیت دی جارہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت اس قسم کے کسی بھی اقدام کی حمایت نہیں کرے گی اور چاہتی ہے کہ حکومت سول عدالتوں کو مضبوط کرے۔

جے یو آئی (ف) کے چیف کا کہنا تھا کہ 'فوجی عدالتوں کو توسیع دینا حکومت کی جانب سے اس بات کا اقرار ہوگا کہ وہ دو سال میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت مقرر کیے گئے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی'۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ نا صرف فوجی عدالتوں کو مستقل حیثیت دینا اس بات کا تاثر دے گا کہ سول عدالتوں کے ججز جرات مند نہیں ہیں بلکہ یہ عدالتی نظام کی توہین بھی تصور کیا جائے گا۔

انھوں نے تجویز دی کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے بجائے محفوط ماحول فراہم کرنے کیلئے سول ججز کو سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

خیال رہے کہ حکومت نے جنوری 2015 کو آرمی ایکٹ میں 21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تمام صوبوں میں فوجی عدالتیں قائم کیں تھیں تاکہ ان عدالتوں میں دہشت گردی میں ملوث سول ملزمان کے خلاف ٹرائل کیا جاسکے۔

یہ بھی یاد رہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام نیشنل ایکشن پلان کے تحت عمل میں لایا گیا تھا، جس کا آغاز دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں اسکول کے اساتذہ اور طالب علموں سمیت 144 افراد کی ہلاکت کے بعد کیا گیا تھا۔

آئینی ترمیم کے تحت یہ فوجی عدالتیں 7 جنوری 2017 کو اپنی مدت پوری کرتے ہوئے کام بند کردیں گی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے شکایت کی کہ فوجی عدالتوں کو مختلف مذاہب کے لوگوں کے ٹرائل کیلئے بنایا گیا تھا، جو انتہائی غلط اقدام تھا۔

انھوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت معاشرے کے مخصوص لوگوں اور مدارس کو نشانہ بنایا گیا۔

جے یو آئی (ف) کے چیف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے دیگر عوامل کو نظر انداز کیا گیا اور فوجی عدالتوں کو صرف اور صرف مذہبی دہشت گردی میں ملوث افراد کے ٹرائل تک محدود رکھا گیا۔

وزیراعظم نواز شریف سے حالیہ ملاقات کے دوران فوجی عدالتوں کا مسئلہ اٹھائے جانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد مذکورہ سمری وزارت داخلہ کو بھجوائی گئی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ فوجی عدالتوں میں بے گناہ لوگوں کا ٹرائل کیا گیا اور انھیں پھانسیاں دی گئیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'فوجی عدالتوں کو مستقل حیثیت دینے کا مقصد ہوگا کہ آپ کو سول عدالتوں اور عدالتی نظام پر بھروسہ نہیں، اور ہماری پارٹی اس کی مخالفت کرے گی'۔

انھوں نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی وطن واپسی کی تعریف کی تاہم ان کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری اور خود کو قومی اسمبلی کی رکنیت کیلئے ضمنی انتخابات میں شرکت کرنے پر احتیاط سے تبصرہ کیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'میں اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کہ آصف علی زرداری کو پارلیمنٹ میں آنا چاہیے یا نہیں لیکن ان کا یہ فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود ان کی پارٹی کی قیادت خود کو متبادل طاقت کے طور پر منوانے میں ناکام رہی ہے'۔

جے یو آئی (ف) کے چیف نے ان رپورٹس کی تردید کی، جن میں کہا جارہا تھا کہ وزیراعظم نے انھیں اپوزیشن جماعتوں سے مصلحت کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وزیراعظم نے ہونے والی میری آخری ملاقات ایک معمول کی ملاقات تھی تاہم میڈیا نے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا'۔

افغانستان کے مذاکراتی عمل اور یہاں امن کے اقدامات کیلئے پاکستان، چین اور روس کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے کابل دورے کے موقع افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے دیگر قوتوں کو ان تین ممالک کی جانب سے آغاز کیے جانے والے عمل کی حمایت کرنے پر زور دیا تھا'۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'افغانستان میں امن کی قیام کیلئے پاکستان اہم کردار کرسکتا ہے'۔

جے یو آئی (ف) کے چیف نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے ایک بڑی پیش رفت ہے اس لیے اس پر سیات نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ راہداری منصوبے کے حوالے سے حکومت کو سیاسی جماعتوں کے جائز تحفظات کو دور اور مطالبات کو تسلیم کرنا چاہیے۔

یہ رپورٹ 30 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی