پاکستان

' ہاتھ کی لکیروں سے ذہانت کا پتہ '

ہاتھ دکھانے کا رجحان تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے, اس بات کا شکوہ اس پیشے سے وابستہ تمام لوگ کرتے نظر آتے ہیں۔

انسان فطرتاً جلد باز اور متجسس ہے، وقت سے پہلے آنے والے وقت کو جاننے کی کھوج انسان کو کبھی ستاروں کی چال دیکھنے پر مجبور کردیتی ہے, تو کبھی اپنے ہی ہاتھ کی ہتھیلی میں پڑی آڑھی ترچھی لکیروں کو پڑھوانے کا شوق کئی در کھٹکھٹانے پر مجبور کرتا ہے۔

کلفٹن میں واقع فن لینڈ اور عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے کچھ دور کی مسافت پر شری رتنیشور مہادیو مندر کے درمیان سڑک کے کنارے جھاڑیوں کے سامنے کاروں کی طویل قطار صبح 10 بجے سے ہی لگ جاتی اور پھر دیر رات تک اس سنسان سی جگہ لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، یہ معمول کوئی نیا نہیں بلکہ گذشتہ 16 سال سے یونہی جاری و ساری ہے۔

2 کروڑ شہر کی آبادی کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد 16 برس سے ڈیرہ جمائے 62 سالہ سراج بشیر کی تلاش میں یہاں پہنچتی ہے, جو ان افراد کی ہتھیلی میں ان کی شخصیت، کیرئیر، شادی، قسمت، اور ذہانت کو کھوجتے ہیں۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق ، پہلے آئیے، پہلے پائیے کی بنیاد پر لوگوں کے ہاتھ دیکھنے والے سراج بشیر دیگر پیشہ ور افراد کی طرح اس سروس کے کوئی پیسے وصول نہیں کرتے، وہ اپنے معاون کی مدد سے اسٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں لوگوں کے ہاتھ کی لکیروں میں جھانکتے جھانکتے ایک دہائی سے زائد گزر چکے ہیں۔

شہادت کی انگلی کے نیچے جوپیٹر کی تلاش سے وہ لوگوں کی شخصیات اور ان کے برتاؤ کا اندازہ لگاتے ہیں، سراج کہتے ہیں کہ صارف کی شخصیت کی بنیادی خصوصیات بتا کر اس کا اعتماد حاصل کیا جاسکتا ہے۔

مذہبی ماحول میں پرورش اور مدرسے سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود سراج بشیر نے پامسٹری کے شعبے کا انتخاب کیا اور 16 سال قبل شاید ان کا یہ فیصلہ ایسا کوئی غلط بھی نہ تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ پامسٹری صرف ترجمانی کا ایک طریقہ ہے، یہ اس بات کا علم ہے کہ ایک انسان کیا کچھ کرنے کے قابل ہے اور اسی لیے وہ اپنے پاس آنے والے افراد کو کسی بھی غلط کام سے دور رہنے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی قرآنی آیت ضرور دیتے ہیں۔

پہلے پہل لوگ ہاتھ دیکھنے والے افراد کی بتائی باتوں پر انحصار کرتے تھے— فوٹو: شٹر اسٹاک

اپنے طویل تجربے کی روشنی میں سراج بتاتے ہیں کہ خواتین سب سے زیادہ اپنی شادی کے لیے پریشان ہوتی ہیں لیکن میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ جلد شادی ان کے کیرئیر کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے۔

ان کا مزید بتانا تھا کہ اگر کسی لڑکی کی ہاتھ کی لکیریں اس کی ذہانت کا پتہ دیں تو وہ اسے کسی اچھے شعبے کو اپنانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

اسی طرح اگر کوئی لڑکا جس کی طبیعت میں غصہ اور تشدد کا عنصر واضح ہوجائے وہ اسے کچھ عرصے کے لیے شادی نہ کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔

8 لاکھ سے زائد ہاتھوں کی لکیروں میں لوگوں کی قسمت جھانکنے والے سراج بشیر بھی انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے آگے ہاتھ ملتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ اس بات کا اندازہ لگا چکے ہیں کہ اب لوگوں میں ہاتھ دکھانے کا شوق ماند پڑتا جارہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اب سب کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے، پہلے پہل لوگ واقعی ہاتھ دیکھنے والے افراد کی بتائی باتوں پر انحصار کرتے تھے لیکن اب انٹرنیٹ کی وجہ سے زیادہ تر افراد پامسٹری کے علم کی بنیادی باتوں سے پہلے ہی واقف ہوتے ہیں۔

اب لوگ ہاتھ دکھانے کو صرف تفریح کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

ہاتھ دکھانے کا رجحان تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے اس بات کا شکوہ اس پیشے سے وابستہ تمام ہی ماہرین کرتے نظر آتے ہیں، ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں لوگوں کے ہاتھ دیکھنے والے منظر علی بتاتے ہیں کہ میرے والد بھی اسی شعبے سے وابستہ تھے اور اب میں بھی 9 سال سے یہ ہی کام کررہا ہوں لیکن اب لوگوں کا رجحان بہت کم ہوچکا ہے۔

پامسٹ کے اسٹال کا اکثروبیشتر رخ کرنے والے احمد کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب لوگ لوگ ہاتھ دکھانے، علم الاعداد اور علم نجوم کو سنجیدگی سے لیتے تھے مگر اب لوگ اسے صرف تفریح کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

اسی اسٹال پر موجود فوزیہ کا خیال تھا کہ لوگوں کا اعتماد اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ پامسٹ کی پیش گوئی کتنی درست ہے۔

تاہم اب بھی ہاتھ دیکھنے والے افراد اس پیشے کو ترک نہیں کرنا چاہتے، 600روپے فی ہتھیلی پڑھنے والے ہارون کہتے ہیں کہ چونکہ ہر ہفتے لوگوں کی محدود تعداد ہمارے پاس آتی ہیں لہذا ہمیں فیس اتنی رکھنی پڑتی ہے کہ ہمارا بجٹ بیلنس رہے۔