پیر پٹھو کی وادی: موجوں سے مَیلوں تک
پیر پٹھو کی وادی: موجوں سے مَیلوں تک
امام صاغانی برسوں سندھ اور ہند کے شہروں میں گھومتے رہے۔ اگر اپنے ملک کا رخ کرتے تو بھی کسی نہ کسی بہانے دوبارہ اس دھرتی پر لوٹ آتے۔ ساتویں صدی کی ابتدا میں وہ خلیفہ ناصرالدین کے سفیر بن کر لوٹے اور 'التتمش' کی دربار میں پہنچے۔
وہ ایک کتاب ’العباب الزاخر واللباب الفاخر‘ کے مصنف بھی تھے، مگر اپنی کتاب مکمل نہیں کر سکے کیوں کہ موت کی تیز دھار نے 650 ہجری میں زندگی کی طنابیں کاٹ دیں۔ وہ دیبل بندر کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ، "دیبل سندھ کے شہروں میں سے ایک شہر ہے جہاں بندرگاہ ہے اور وہاں تجارتی جہاز آ کر لنگر انداز ہوتے ہیں۔"
دیبل بندر کے متعلق آپ جتنا زیادہ جاننا چاہتے ہیں، سندھ کے ماضی کی یہ اہم بندرگاہ آپ سے اتنی ہی دُور ہوتی جاتی ہے۔ کوئی محقق اُسے ننگر ٹھٹھہ سے جنوب کی طرف بتاتا ہے تو کچھ مغرب کی طرف بتاتے ہیں، مگر ہم مکلی کے جنوب میں چلتے ہیں جہاں 14 میل لمبی اس پہاڑی کا اختتام ہوتا ہے۔ اس پہاڑی کے اختتام کی کوکھ سے قدیم دریائے سندھ کی بڑی اُنسیت رہی ہے۔
یہ دریائے سندھ کا بہاؤ ہی ہے جس نے اسے ایک وادئ کا اعزاز بخشا ہے۔ مجھے وہاں جانے کے لیے الگزینڈر کننگھم کی ان سطروں نے بھی ہمت دی تھی جن میں انہوں نے لکھا تھا کہ، ’’میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ لاڑی بندر دیبل کے بہت قریب تھا۔‘‘
میکمرڈو لکھتے ہیں، گھارو والا بہاؤ جس پر بنبھور آباد تھا وہ خشک ہونے سے پہلے جہاز رانی کے لائق نہیں رہا تھا۔ 1250 تک بنبھور اور دیبل اُجڑ چکے تھے کہ دریائے سندھ کی ریت نے ان کو بھر دیا تھا۔ جب 1336 میں ابن بطوطہ لاڑی بندر دیکھنے آیا، تو یہ ایک بڑا بندر تھا جو دیبل کے اُجڑنے کے بعد آباد ہوا تھا۔‘‘
"یہ بھی امکان ہے کہ، دیبل بندر دریائے سندھ کے ’بگھاڑ‘ نامی بہاؤ پر بستا ہو جو اُس وقت مرکزی بہاؤ تھا۔‘‘ یہ بات ہیملٹن نے 1699 میں کہی تھی، ان دنوں میں دیبلی یا دیبل والا بہاؤ لاڑی بندر تک جاتا تھا، جو پیر پٹھو سے جنوب مغرب میں تھا۔
مکلی کی پہاڑی کی ابتدا سمہ خاندان کے دارالحکومت ’ساموئی‘ سے ہوتی ہے اور اختتام ایک گمشدہ بندرگاہ کی روایات پر ہوتا ہے، جسے پیر پٹھو وادی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ، سموں حکمران جام تماچی جب 1389 میں تخت پر بیٹھے تو اُنہوں نے شیخ حماد جمالی کی خانقاہ کے لیے بڑی رقم دی۔
شیخ حماد جمالی نے اس رقم سے ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی۔ مسجد کی تعمیر کے بعد شیخ حماد جمالی نے سمہ سرداروں کو حکم دیا کہ اب تدفین یہاں مکلی میں ہونی چاہیے نہ کہ پیرآور (پیر پٹھو) پر۔‘‘ اور اس طرح سمہ سرداروں کی تدفین مکلی پر ہونے لگی۔ مگر پیر پٹھو پر کلہوڑا حکمرانوں کے مقبروں اور قبروں سے لگتا ہے کہ پیر پٹھو کی قدیمی حیثیت میروں کے زمانے تک بحال رہی۔