نقطہ نظر

پیر پٹھو کی وادی: موجوں سے مَیلوں تک

پیر پٹھو کی درگاہ اور قدیم مسجد قدیم فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہیں، جن سے ماضی کی عقیدت، احترام اور محنت نظر آتی ہے۔

پیر پٹھو کی وادی: موجوں سے مَیلوں تک

ابوبکر شیخ

امام صاغانی برسوں سندھ اور ہند کے شہروں میں گھومتے رہے۔ اگر اپنے ملک کا رخ کرتے تو بھی کسی نہ کسی بہانے دوبارہ اس دھرتی پر لوٹ آتے۔ ساتویں صدی کی ابتدا میں وہ خلیفہ ناصرالدین کے سفیر بن کر لوٹے اور 'التتمش' کی دربار میں پہنچے۔

وہ ایک کتاب ’العباب الزاخر واللباب الفاخر‘ کے مصنف بھی تھے، مگر اپنی کتاب مکمل نہیں کر سکے کیوں کہ موت کی تیز دھار نے 650 ہجری میں زندگی کی طنابیں کاٹ دیں۔ وہ دیبل بندر کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ، "دیبل سندھ کے شہروں میں سے ایک شہر ہے جہاں بندرگاہ ہے اور وہاں تجارتی جہاز آ کر لنگر انداز ہوتے ہیں۔"

دیبل بندر کے متعلق آپ جتنا زیادہ جاننا چاہتے ہیں، سندھ کے ماضی کی یہ اہم بندرگاہ آپ سے اتنی ہی دُور ہوتی جاتی ہے۔ کوئی محقق اُسے ننگر ٹھٹھہ سے جنوب کی طرف بتاتا ہے تو کچھ مغرب کی طرف بتاتے ہیں، مگر ہم مکلی کے جنوب میں چلتے ہیں جہاں 14 میل لمبی اس پہاڑی کا اختتام ہوتا ہے۔ اس پہاڑی کے اختتام کی کوکھ سے قدیم دریائے سندھ کی بڑی اُنسیت رہی ہے۔

یہ دریائے سندھ کا بہاؤ ہی ہے جس نے اسے ایک وادئ کا اعزاز بخشا ہے۔ مجھے وہاں جانے کے لیے الگزینڈر کننگھم کی ان سطروں نے بھی ہمت دی تھی جن میں انہوں نے لکھا تھا کہ، ’’میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ لاڑی بندر دیبل کے بہت قریب تھا۔‘‘

میکمرڈو لکھتے ہیں، گھارو والا بہاؤ جس پر بنبھور آباد تھا وہ خشک ہونے سے پہلے جہاز رانی کے لائق نہیں رہا تھا۔ 1250 تک بنبھور اور دیبل اُجڑ چکے تھے کہ دریائے سندھ کی ریت نے ان کو بھر دیا تھا۔ جب 1336 میں ابن بطوطہ لاڑی بندر دیکھنے آیا، تو یہ ایک بڑا بندر تھا جو دیبل کے اُجڑنے کے بعد آباد ہوا تھا۔‘‘

"یہ بھی امکان ہے کہ، دیبل بندر دریائے سندھ کے ’بگھاڑ‘ نامی بہاؤ پر بستا ہو جو اُس وقت مرکزی بہاؤ تھا۔‘‘ یہ بات ہیملٹن نے 1699 میں کہی تھی، ان دنوں میں دیبلی یا دیبل والا بہاؤ لاڑی بندر تک جاتا تھا، جو پیر پٹھو سے جنوب مغرب میں تھا۔

مکلی کی پہاڑی کی ابتدا سمہ خاندان کے دارالحکومت ’ساموئی‘ سے ہوتی ہے اور اختتام ایک گمشدہ بندرگاہ کی روایات پر ہوتا ہے، جسے پیر پٹھو وادی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ، سموں حکمران جام تماچی جب 1389 میں تخت پر بیٹھے تو اُنہوں نے شیخ حماد جمالی کی خانقاہ کے لیے بڑی رقم دی۔

شیخ حماد جمالی نے اس رقم سے ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی۔ مسجد کی تعمیر کے بعد شیخ حماد جمالی نے سمہ سرداروں کو حکم دیا کہ اب تدفین یہاں مکلی میں ہونی چاہیے نہ کہ پیرآور (پیر پٹھو) پر۔‘‘ اور اس طرح سمہ سرداروں کی تدفین مکلی پر ہونے لگی۔ مگر پیر پٹھو پر کلہوڑا حکمرانوں کے مقبروں اور قبروں سے لگتا ہے کہ پیر پٹھو کی قدیمی حیثیت میروں کے زمانے تک بحال رہی۔

وادی کے پاس موجود قدیم قبریں اور مقابر — تصویر ابوبکر شیخ

وادی پٹھو کے پاس موجود قدیم قبریں اور مقابر — تصویر ابوبکر شیخ

وادی پٹھو کے پاس موجود قدیم قبریں اور مقابر — تصویر ابوبکر شیخ

وادی میں موجود ایک قدیم مقبرہ — تصویر ابوبکر شیخ

مکلی سے اگر آپ جنوب کی طرف نکلیں تو مکلی کی پہاڑیوں میں سے ایک سڑک آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ، مشینیں اب پہاڑیوں کو مسلسل اسٹون کرشر کی صورت میں جیسے چبا رہی ہیں اور یہ سلسلہ اس قدر تیزی سے جاری ہے کہ اگلے دس سے پندرہ برسوں میں ہم فقط یہ سنیں گے کی یہاں چھوٹی، ننھی منی سی پہاڑیاں ہوا کرتی تھیں، جن میں زقوم کی جھاڑیاں اُگتی تھیں، جن پر تیز سُرخ رنگ کے پھول کھلتے تھے اور یہاں کا اپنا ایک حیاتیاتی تنوع تھا جسے خود ہماری ہوس نے برباد کر دیا۔ پھر اس راستے سے چل کر دو جڑواں چھوٹے شہر ’ور‘ اور ’غلام اللہ‘ واقع ہیں جہاں سے تھوڑا آگے جائیں گے تو پیر پٹھو کی قدیم وادی آپ کے سامنے ہوتی ہے۔

یہاں کے متعلق ایک کہاوت مشہور ہے کہ، "مکلی ٹکری، ننگر ٹھٹھو، ائیں پیر پٹھو، جنھن نہ ڈٹھو، تنھن کجُھ بہ نہ ڈٹھو۔" مطلب یہ کہ ’’مکلی، ننگر ٹھٹھہ اور پیر پٹھو، جس نے یہ نہ دیکھے، سمجھیے اُس نے کچھ بھی نہ دیکھا۔‘‘

ہم یقیناً اُس قطار میں کھڑا ہونا نہیں چاہتے جن پر ’کچھ نہ دیکھنے’ کا الزام ہو، سو ہم جب یہاں پہنچے تو کہاوت پر یقین سا آ گیا۔

پیر پٹھو یہاں ’شاہ عالم‘ کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس کامل بزرگ کا نام حسن بن راجپار بن لاکھو بن سخیرہ ہے اور کُنیت ’ابوالخیر‘ ہے۔ یہ حسن دیبلی کے نام سے بھی مشہور ہیں۔مگر یہ بزرگ کس زمانے کے ہیں؟

ان کے متعلق ڈاکٹر غلام علی الانا لکھتے ہیں، ’’سمتھ کے بیان کے مطابق وہ شیخ سعدی کے ہمعصر تھے، مگر جمیل شاہ ڈاتار کے سجادہ نشین کے پاس جو کتاب ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ پیر پٹھو، لعل شہباز قلندر، اور امیر خسرو دہلوی ایک ہی زمانے کے ہیں۔ کتاب کے مطابق پیر پٹھو کی وفات 1248 میں ہوئی، جبکہ شہباز قلندر کا سن وفات 1274 ہے۔‘‘

پیر پٹھو کی وادی کے مقام پر موجود پہاڑی پر موجود خانقاہیں اور مقابر — تصویر ابوبکر شیخ

پیر پٹھو کے مقام پر موجود قربستان اور خانقاہیں — تصویر ابوبکر شیخ

دور دور تک شاندار خانقاہیں دکھائی دیتی ہیں — تصویر ابوبکر شیخ

تحفتہ الکرام میں روایت ہے کہ ’’شیخ صاحب اسی غار میں رہتے تھے (جہاں پر اب مقبرہ بنا ہے)۔ ایک دفعہ شیخ بہاؤالدین ذکریا ملتانی اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں سے گذرے۔ ان میں لعل شہباز قلندر بھی شامل تھے۔ یہ جب یہاں سے گذرے تو اُنہیں معلوم ہوا کہ اس پہاڑی میں قیمتی لعل چھُپا ہوا ہے۔ اسی تلاش میں وہ اس غار تک گئے اور پیر پٹھو کو گمنامی کے گوشے سے نکال کر اپنا مُرید ظاہر کیا۔‘‘

پیر پٹھو کی نشانی وہ دستار ہے جو اب بھی میلے کے موقع پر سجادہ نشین پہنتا ہے اور بڑی شان سے خانقاہ سے مزار تک مریدوں کے ساتھ چل کر جاتا ہے۔ میروں کی حکومت تک یہاں اناج اور گھی کے گودام تھے جو زیارت پر آنے والوں کو لنگر کھلانے کے لیے بنائے گئے تھے۔

محمد تغلق سے بغاوت کرنے والے ’طغی‘ نے گجرات سے بھاگ کر ٹھٹھہ میں پناہ لی، جس کی وجہ سے محمد تغلق ٹھٹھہ پر حملہ کرنے کی غرض سے گجرات سے نکلے، مگر ننگر ٹھٹھ سے 14 کوس دور 752 ہجری میں وفات کر گئے۔

پھر تخت پر جب ’فیروز تغلق‘ بیٹھے تو وہ بھی ٹھٹھہ پر حملہ کرنے کی غرض سے آئے، مگر اُس زمانہ میں سندھ کے سیاسی حالات تغلقوں کے لیے موزوں نہیں تھے جس کی وجہ سے ناکام اور بیزار ہو کر وہ گجرات کے راستے واپس چلے گئے۔ محمد تغلق کی موت اور فیروز تغلق کی ناکامی پر ایک کہاوت بہت مشہور ہوئی:

’’بابرکت پیر پٹھو، ھک مُئو ھک ڈٹھو‘‘ (پیر پٹھو کی برکت سے ایک مرا اور ایک بھاگ گیا)۔

اس کہاوت سے اُس زمانے میں اس خانقاہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد لاکھو لکھتے ہیں ’’سندھ میں تصوف کی روایت بہت پرانی ہے، سمہ دور میں اسماعیلی مبلغ ہمیں اپنی تبلیغ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ چشتی طریقہ یہاں کچھ خاص انداز میں رائج نہ ہو سکا، جبکہ نقشبندی طریقہ بہت دیر سے یہاں پہنچا۔

البتہ قادری اور سہروردی سلسلے یہاں سومرا دور سے موجود تھے۔ نوح بکھری، قلندر لعل شہباز، پیر پٹھو، سید علی اور پیر پتھورو کو سندھ میں تصوف کی ابتدائی اہمیت حاصل ہے۔ ان بزرگوں کی درگاہیں یہاں صوفی ازم رائج کرنے میں بڑا اہم رُتبہ رکھتی ہیں۔‘‘

پیر پٹھو کے مزار کا اندرونی منظر — تصویر ابوبکر شیخ

مزار پیر پٹھو — تصویر ابوبکر شیخ

مزار پیر پٹھو — تصویر ابوبکر شیخ

مزار پیر پٹھو کے در و دیوار پر موجود لکڑی کا کام — تصویر ابوبکر شیخ

پیر پٹھو کی درگاہ اور قدیم مسجد اپنے وقت کی فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہیں خاص کر 8 ستونوں پر جمی وہ چھتری اور لکڑی کے دروازے جن سے ماضی کی عقیدت، احترام اور محنت جھانکتی نظر آتی ہے۔ یہ درگاہ بالکل دریائے سندھ کے بہاؤ کے اوپر پہاڑی پر ہے۔ اس درگاہ سے آپ اگر مغرب جنوب میں جمیل شاہ گرناری کے مزار تک جانا چاہیں تو قبروں، مزاروں، خانقاہوں، مسجدوں کی ایک دنیا کو دیکھتے چلے جاتے ہیں۔

قدیم مسجد — تصویر ابوبکر شیخ

مزار کی مسجد کا قدیم منبر — تصویر ابوبکر شیخ

قدیم مسجد کی اندرونی طرز تعمیر — تصویر ابوبکر شیخ

ماضی کے ان مزاروں پر نہ جانے کتنے زمانے گزرے کہ خاموشی ان کی اینٹوں میں بس سی گئی ہے، اور روح میں اُترنے والے سکون کی بیلیں ہیں جو ان خاموش پتھروں میں سے اُگتی ہیں۔ ساتھ میں اگر شمال کی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چلے تو نہ جانے چلتے چلتے کتنی کیفیتوں کی قلمیں ذہن کی زمین پر اُگ آتی ہیں۔ وقت جو کسی کے لیے نہیں رُکتا۔ وقت جو جھولیاں بھرتا، رنگ بکھیرتا اور جیون کی چھاؤں کی طنابیں کاٹتا اور روحوں کو روندتا گزر جاتا ہے، کسی کے لیے نہیں رُکتا!

ہم بھی جب ان کیفیتوں سے گزر کر جمیل شاہ ڈاتار کی درگاہ پہنچے تو نہ جانے کتنے وجود تھے جن سے زندگی نے روُٹھ کر اپنے رنگ واپس لے لیے تھے اور وہ اُن رنگوں کے لوٹ آنے کی اُمید میں درگاہ کے فرش نشین تھے۔ آنسو تھے کہ ان لوگوں کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہنسی دل کے اوپر سے اُگتی ہے اور رونا دل کے پاتال سے نکلتا ہے، اس لیے ہی تو یہ اتنی آسانی سے نہیں نکلتا۔

اس بزرگ کا اصل نام سید عبدالہادی بن سید ابو العطاس ہے اور ان کا شجرہ حضرت موسیٰ کاظم سے جا ملتا ہے۔ یہ اصل میں سورٹھ گرنار کے رہنے والے تھے اور وہاں آہن گر کے پیشے سے منسلک تھے۔ سندھ میں حضرت پیر پٹھو کی استدعا پر یہاں آئے۔ اور 1244 میں وفات کی۔

درگاہ شاہ جمیل شاہ ڈاتار — تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ شاہ جمیل شاہ ڈاتار — تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ شاہ جمیل شاہ ڈاتار — تصویر ابوبکر شیخ

درگاہ شاہ جمیل شاہ پر امیدیں پوری ہونے کی تمنائیں— تصویر ابوبکر شیخ

آپ اس درگاہ سے نکل کر مشرق کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ کو وہاں ایک بڑا مینار نظر آتا ہے۔ اور ساتھ میں سفیدی اوڑھے ایک قدیم مسجد بھی نظر آتی ہے۔ اگر زمین کی طرف دیکھیں، جہاں سے کبھی دریائے سندھ کا بہاؤ گذرتا تھا، تو وہاں آپ کو قدیم بستی کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے آپ کو متعدد مقابر اور تاریخی قبرستانوں میں سے ہو کر جانا پڑے گا۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی مقامی بندہ ہے تو کئی دلچسپی باتیں سننے کو مل سکتی ہیں۔

ایسی لوک روایات ہیں جن سے کھوئے ہوئے ماضی اور حال کے احترام کی شیرینی ٹپکتی ہے۔ یہ لوک روایات چونکہ سینہ در سینہ چلتی آتی ہیں شاید اسی لیے ان میں خواہشوں اور تمناؤں کے رنگ وقت کے ساتھ ان میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔

میرے ہمراہ وہاں کے مقامی صحافی عبدالرحمان خشک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’پیر پٹھو سے پہلے یہاں راجا داہر رہتے تھے۔ محمد بن قاسم نے یہاں حملہ کیا تھا، اس پہاڑی کا نام ’آور‘ ہے جو بہت قدیم ہے۔ یہاں کسی زمانے میں بڑا شہر ہوا کرتا تھا۔‘‘

روشنی کا مینار — تصویر ابوبکر شیخ

روشنی کا مینار — تصویر ابوبکر شیخ

عبدالرحمان خشک نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے جس یقین سے کہا کہ: ’دیبل بندر یہ ہی ہے‘، تو کچھ لمحوں کے لیے مجھے بھی ایسا لگا کہ ہاں، یہ ہی تو تھا دیبل بندر۔ اس سلسلے میں جب میں نے محقق محترم بدر ابڑو سے پوچھا تو اُنہوں نے بڑا حقیقی اور خوبصورت جواب دیا ’’اس حوالے سے میں شاید آپ کو کوئی مکمل جواب نہ دے سکوں، کیوں کہ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ ایک قدیم بہاؤ یہاں سے بہتا تھا۔ یہاں ایک قدیم بستی کے آثار بھی ہیں۔

"یہاں بندرگاہ کا ہونا کوئی ناممکن سی بات نہیں لگتی۔ پیر پٹھو کی پہاڑی پر قدیم مقابر، مساجد اور قبرستان ہیں۔ مینار ہے جس کو اب نئے سرے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ میں اسے روشنی کا مینار کہتا ہوں۔ وہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا ایک بندرگاہ پر ہونا چاہیے، تاکہ دور سے کشتیوں اور بحری جہازوں کو روشنی نظر آئے۔

"پھر یہاں دو قدیم مساجد ہیں۔ دوسری مسجد کی تعمیر لوگوں کی بہتات کی وجہ سے کرنی پڑی۔ خود پیر پٹھو کی درگاہ بھی کافی بلندی پر ہے۔ سب کچھ ممکنات کے دائرے میں ہے۔ ہوسکتا ہے یہ دیبل ہو۔ مگر جب تک کھدائی نہیں ہوتی، آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی رپورٹس نہیں آتیں، تب تک میں کچھ کہنے کی کیفیت میں نہیں ہوں شاید۔‘‘

بدر ابڑو صاحب کے اس جواب کے بعد اس حوالے سے میرے پاس دوسرا کوئی سوال نہیں بچا تھا۔

یہ قدیم مساجد اچھی حالت میں موجود ہیں اور ان کی تعمیر الگ الگ ادوار کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ شمال کی طرف واقع مسجد مغل دور میں تعمیر ہوئی تھی اور جنوب میں موجود مسجد کلہوڑا دور کی تعمیر ہے۔

مینار پر نصب افتتاحی سنگ مرمر پر یہ تحریر کنندہ ہے ’’خیال ہے کہ یہ عرب دور کا شہر ’آر‘ (آور) تھا جو یہاں آباد تھا۔ عربوں اور مغلوں کے دور تک یہاں سے دریا گذرتا تھا، اس کی وجہ سے اس کو لائٹ ہاؤس (روشنی مینار) بھی کہتے ہیں۔ اس مینار کا تعلق ان مساجد سے ہے جو مغل اور کلہوڑا دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ دو منزلہ مینار 45 فٹ اونچا ہے اور اس کی بنیاد 65 فٹ کی گولائی میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ قدیم مینار ٹوٹ کر گر گیا تھا جس کو ’انڈومینٹ فنڈ ٹرسٹ فار پریزرویشن آف دی ہیریٹیج آف سندھ‘ اور کلچر ڈپارٹمنٹ کے تعاون سے ستمبر 2016 میں بحال کیا گیا۔‘‘

میں نے جب اس مینار پر سے شمال کی جانب دیکھا تو ایک سحر انگیز منظر میرے سامنے تھا۔ ٹھنڈ کی وجہ سے ہلکی دھند کی ایک لکیر تھی جو اس منظر پر تیر رہی تھی۔ مغرب میں مقبروں اور قدیم قبرستانوں کی ایک دنیا آباد تھی۔

روشنی مینار سے وادی کا نظارہ — تصویر ابوبکر شیخ

روشنی مینار سے قبرستان، مسجد اور خانقاہیں نظر آتی ہیں — تصویر ابوبکر شیخ

روشنی مینار سے وادی کا نظارہ — تصویر ابوبکر شیخ

پیر پٹھو کی وادی میں قدیم مسجد — تصویر ابوبکر شیخ

شمال میں جہاں دریا کا قدیم بہاؤ تھا وہاں اب پانی اور کشتیوں کی جگہ زرخیز مٹی کی تہہ بچھ گئی ہے جس میں گہرے سبز رنگ کی فصلیں بچھی ہیں کہ دریا، دَین کا دوسرا نام ہے۔ اُس نے دینا ہی سیکھا ہے۔ میں نے جب اس بہاؤ کے خشک ہونے کے متعلق ڈاکٹر محمد علی مانجھی صاحب سے پوچھا تو جواب آیا ’’اس بہاؤ کو خشک ہونے میں اتنا کوئی طویل عرصہ نہیں گذرا ہے، بلکہ میروں کے زمانے تک اس میں چھوٹی کشتیاں چلتی تھیں۔ اس کے بعد جب سکھر اور کوٹری بیراج بنے تو پھر یہ بالکل خشک ہو گیا۔‘‘

تب مجھے ’جیمس برنس‘ کا وہ سفرنامہ یاد آیا جو اُنہوں نے 1828 میں "اے وزٹ ٹو کورٹ آف سندھ" کے نام سے تحریر کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’24 جنوری کو ہم نے ٹھٹھہ سے پھر اپنا سفر شروع کیا۔ شام کو پیر پٹھو کے نزدیک سیتا گھاٹ پر پہنچے، جو دو کوس دور سے نظر آ رہا تھا۔ دریائے سندھ کے پانی کے ساتھ چلتے مجھے کچھ خاص نظر نہیں آیا، البتہ کچھ سرسوں کے کھیت ضرور نظر آئے، کیوں کہ شکار گاہوں کے لیے ذرخیز زمینوں کو جنگلوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ میں نے دریائے سندھ کے اس بگھاڑ بہاؤ کو دیکھا، جس کو ’سیتا‘ نام سے بھی بلاتے ہیں، جو کہیں کہیں پر ایک کوس تک چوڑا ہے۔‘‘

جیمس برنس کے اس بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اُس وقت سفر کر رہے تھے جب یہاں ٹھنڈ تھی۔ ان مہینوں میں برف نہیں پگھلتی، تب بھی اس بہاؤ میں اتنا پانی تھا کہ کشتی رانی ہوتی تھی۔ اور جب جولائی اگست کے مہینوں میں برف پگھل رہی ہوتی ہے، تب اس بہاؤ میں کتنا پانی ہوگا؟ بہرحال جو بھی ہو یہ زمانہ اس بہاؤ کے چل چلاؤ کا زمانہ تھا۔

میں مینار کے مغرب میں لکڑی کے بنے اُس خوبصورت جھروکے پر آ کر کھڑا ہوتا ہوں۔ سامنے اُن قدیم مسجدوں کا وسیع آنگن پھیلا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ، اس جھروکے سے اذان دی جاتی تھی۔ تھوڑا تصور کریں کہ فجر اور مغرب کے وقت جب یہاں سے مؤذن کی آواز بہتی نیچے آبادی اور کشتیوں تک اور سامنے خانقاہوں اور مزاروں پر پہنچتی ہوگی تو کیسا سماں بندھتا ہوگا۔

میں نہ جانے کتنی دیر اس جھروکے پر بیٹھا رہا۔ اور اس وادی کے نصیبوں پر رشک کرتا رہا جس پر کئی صدیاں موسموں کی طرح گزر گئیں۔ جس بہاؤ نے اس کو وادی کا اعزاز دیا وہ کب کا روٹھ کر چلا گیا، مگر یہ وادی اُس کی یادوں کو اپنے اندر سمو کر اب بھی جیتی ہے۔

اب بھی اس پہاڑی پر لوگوں کے میلے لگے ہوئے ہیں۔ روزانہ ہزاروں لوگ آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ یہاں دن رات میں ایسا کوئی پل نہیں جب خاموشی چھائی ہو، کیوں کہ اُمیدوں اور تمناؤں کے پرندے زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔