سلمان بٹ اور آصف کو ٹیم میں کیوں واپس لانا چاہیے؟
میں پہلی دفعہ عدالت 2002 میں گیا تھا۔ میں وہاں ایک سیلز کال پر تھا، اور اس امید پر گیا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج ایک لاکھ روپے کا وہ قرضہ لے لیں گے جو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے ان کے کریڈٹ کارڈ کے اچھے ریکارڈ کی وجہ سے پہلے ہی منظور کر دیا تھا۔
وقفے کے دوران انہوں نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا جہاں ہم نے کرکٹ، سیاست، کرپشن، اور انصاف پر تھوڑی مگر گہری گفتگو کی۔
اسی دور قومی ریفرینڈم میں اطلاعات کے مطابق 97 فیصد پاکستانیوں نے جنرل پرویز مشرف کو اگلے پانچ سال کے لیے صدر چن لیا تھا۔
زیادہ تر لوگوں کی طرح مجھے بھی اس وقت کے بہت سے سیاستدانوں سے رنجشیں تھیں۔ اب فوجی حکومت کے دوران ملک سے نہ بھاگنے والے اور فوجی حکومت کا حصہ نہ بننے والے زیادہ تر سیاستدان عدالتوں میں پیشیاں بھگتا رہے تھے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ ان لوگوں کو سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جج کی حیثیت سے ہم بغیر ثبوت کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ "کئی بار مجھے یہ پتہ ہوتا ہے کہ میں ایسے شخص کو بری کر رہا ہوں جو کہ مجرم ہے۔"
مگر استغاثہ کی جانب سے ثبوتوں کی عدم فراہمی، یا کمزور ثبوت پیش کیے جانے کی وجہ سے مجرم کھلے عام گھومتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی فیصلے کو اپنی مرضی کے مطابق تحریر نہیں کر سکتے۔
سیاستدانوں کی طرح مجھے ہماری عدلیہ پر بھی کچھ خاص یقین نہیں تھا۔ میں یہی سمجھتے ہوئے بڑا ہوا تھا کہ پورا نظام بگڑا ہوا ہے اور جو زیادہ پیسے پھینکے گا، نظام اسی کا ساتھ دے گا۔
مگر ان جج صاحب میں مجھے ایک ایماندار شخص نظر آیا۔
اور بھلے ہی ان کی بینک اسٹیٹمنٹس ان کی ایمانداری کی گواہ تھیں، یہ ان کا ایک لاکھ روپے جیسی نسبتاً چھوٹی رقم کے لیے بینک کے پاس جانا تھا جس سے مجھے ان کی ایمانداری پر یقین ہو گیا۔
آٹھ سال بعد، 2010 کی بات کرتے ہیں۔ لارڈز میں جاری ٹیسٹ میچ کے دوران ایک برطانوی اخبار دی نیوز آف دی ورلڈ نے بک میکر مظہر مجید کی پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر اسپاٹ فکسنگ کرنے کی ویڈیوز جاری کر دیں۔
ایک ویڈیو میں مظہر مجید کو پیشگوئی کرتے دیکھا جا سکتا ہے کہ محمد عامر اور محمد آصف کپتان سلمان بٹ کی زیرِ نگرانی کس اوور کی کون سی گیند پر نو بال کروائیں گے۔ یہ بھی محسوس ہوا جیسے مظہر مجید نے عمر امین کے ساتھ آنے والے وہاب ریاض کو وہ جیکٹ دی جس میں 10 ہزار پاؤنڈز موجود تھے۔
اسی اسٹنگ آپریشن کے ذریعے ریلیز کی گئی ایک اور ویڈیو میں مظہر نے کہا کہ ان فکسز میں کامران اکمل، عمر اکمل، وہاب ریاض اور عمران فرحت بھی شامل تھے۔
فکسنگ کی بیماری پاکستان کرکٹ کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 90 کی دہائی کے سیاستدانوں کی طرح اس دور کے کئی کرکٹرز کا کریئر بھی داغدار تھا۔ فکسنگ کی وجہ سے اس کھیل اور پاکستان کے مایہ ناز کھلاڑیوں کی شہرت تنزلی کا شکار تھی۔
سال 2000 میں جسٹس قیوم کی سنگل بینچ کورٹ میں یہ معاملہ کھل کر سامنے آ گیا، مگر خراب آڈیو ریکارڈنگز، کریڈٹ کارڈ بلز، ناقابل تصدیق گواہیاں اور ہر جانب اٹھتی انگلیاں کمزور شواہد قرار پائیں۔
بالآخر پابندیاں صرف سلیم ملک (جو ویسے ہی اپنے کریئر کے اختتام پر تھے) اور عطا الرحمان (جو سلیکشن کی دوڑ سے باہر تھے) پر لگائی گئیں۔ پاکستان کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑیوں وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، مشتاق احمد اور سعید انور پر معمولی پابندیاں اور جرمانے عائد کیے گئے۔
اعجاز احمد، ثقلین مشتاق، باسط علی اور زاہد فضل کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کے باعث بری کر دیا گیا۔
مگر پاکستان کرکٹ میں پہلے سے چل رہی فکسنگ کے باوجود 2010 والے واقعے میں چند چیزیں ایسی تھیں جو اسے فکسنگ کے گذشتہ دور سے ممتاز بناتی تھیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ پاکستانی کھلاڑیوں پر مقدمہ برطانیہ میں چلا، نہ کہ پاکستانی ہائی کورٹ میں۔ اس کے علاوہ تینوں کھلاڑیوں بٹ، آصف اور عامر کے خلاف قابلِ مواخذہ ثبوت موجود تھے۔ اور اس دفعہ یہ سب کچھ عوامی کے سامنے ہوا اور ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیکھا گیا۔
اگر اس غیر ملکی تفتیشی اخبار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کی قسمت کا فیصلہ کیا ہوتا، تو کیا ان تینوں کو سزا اور پابندی کا سامنا کرنا پڑتا؟ شاید نہیں۔
وہی فوجی جنرل، جنہوں نے کرپٹ سیاستدانوں سے چھٹکارہ دلانے کا وعدہ کیا تھا، 2007 میں قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کر بیٹھے۔
اس آرڈیننس نے 1 جنوری 1986 سے لے کر 12 اکتوبر 1999 تک کرپشن، دہشتگردی و قتل، خوردبرد اور منی لانڈرنگ کے ملزم سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اور بیوروکریٹس کو کھلی چھوٹ دے دی۔ سنگین جرائم میں ملوث ایک پوری نسل کو اپنے کریئر دوبارہ شروع کرنے کے لیے پاک و صاف کر دیا گیا۔
کئی جلاوطن افراد واپس آئے، اور کرپشن کے مقدمات کی ایک طویل فہرست میں ایک دہائی تک جیل آتے جاتے رہنے والے شخص (جن پر ایک بھی الزام ثابت نہیں ہوا) اپنی آئینی مدت پوری کرنے والے ملکی تاریخ کے پہلے صدر بنے۔
تو کیا ہمیں نااہل عدالتوں سے بچ نکلنے والوں کو ہیرو بنانا چاہیے، اور ہمارے ملک کے عدالتی نظام سے کہیں زیادہ مؤثر عدالتی نظام سے سزا پانے اور پوری کرنے والوں کو آسان ہدف سمجھ کر پتھر مارنے چاہیئں؟
عامر کی واپسی پر عمران خان کا کہنا تھا کہ "مجرم ملک چلا رہے ہیں لہٰذا کسی ایک شخص کی واپسی کی مخالفت کرنا بے وقوفی ہے جو کہ اپنی سزا پوری کر چکا ہے۔"
عامر نے قومی ٹیم میں کامیاب واپسی کی ہے، اور اب یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے کہ اگر عامر کھیل سکتے ہیں، تو محمد آصف اور سلمان بٹ کو واپس کیوں نہیں لایا جا سکتا؟ عامر کے ساتھ پی سی بی نے ترجیحی سلوک کیوں کیا ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ ان کی چارج شیٹ ایک جیسی نہیں تھی، اور نہ ہی ان کی سزا۔
عامر نے فوراً جرم تسلیم کر لیا تھا، مگر آصف اور بٹ تب تک الزامات کی تردید کرتے رہے جب تک کہ عدالت میں ان کا جرم ثابت نہیں ہو گیا۔ انہوں نے اپنے سے پہلے والے کھلاڑیوں کو کہیں بڑے جرائم کے باوجود بچ نکلتے دیکھا تھا، اس لیے انہیں بھی بچ جانے کی امید تھی۔
مگر ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ آف انگلینڈ میں کارروائی پاکستانی عدالتوں کے مقابلے میں بہت مختلف انداز میں ہوئی۔ مجید نے جلد ہی اعتراف کر لیا کہ اس نے آصف کو 65,000 پاؤنڈ، بٹ کو 10,000 پاؤنڈ، اور عامر کو 2,500 پاؤنڈ دیے تھے۔
کرمنل کورٹ نے قید کی سزائیں سنائیں: عامر، چھے ماہ؛ آصف، 12 ماہ؛ سلمان بٹ، ڈھائل سال۔
ساتھ ہی ساتھ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے ٹریبونل نے پابندیاں بھی عائد کر دیں: بٹ، 10 سال؛ آصف، 7 سال؛ عامر، 5 سال۔
بٹ اور آصف کی بالترتیب پانچ سال اور دو سال سزا اس شرط پر معاف ہونی تھی کہ "وہ قواعد کی مزید کوئی خلاف ورزی نہ کریں، اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیرِ اہتمام اینٹی کرپشن پروگرام میں شرکت کریں۔"
لہٰذا پی سی بی کی عامر کے لیے نرمی اور ان کی واپسی کے مرحلے میں تیز رفتاری قابلِ فہم ہے۔
عامر کی عمر اور عدالتی کارروائی کے پہلے دن ہی اپنا جرم تسلیم کر لینے کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ تھیں۔
میں اعتراف کرتا ہوں کہ ان تمام باتوں اور کئی دیگر وجوہات کی بناء پر میرے دل میں بھی عامر کے لیے نرم گوشہ رہا ہے۔
میں باؤلر محمد آصف کا بہت بڑا پرستار تھا، مگر ان کے جرم، اور اس پر پشیمان نہ ہونے کی وجہ سے میں قومی ٹیم میں ان کی واپسی کا خواہشمند نہیں تھا۔
اور بٹ؟ وہ تو شاید وہ آخری شخص ہوں جنہیں میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شرٹ میں دیکھنا چاہوں گا۔
میں ان تینوں کے بارے میں رائے قائم کر رہا تھا، اور جلد ہی میری ان کے کیسز پر دوستوں اور رشتے داروں سے بحث ہونے لگی۔
اس احساس نے مجھے ہائی کورٹ کے وہی جسٹس یاد دلا دیے جنہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ان کا کام کتنا مشکل ہے۔ زندگی کا مشکل ترین کام اپنے فیصلے پر جذبات کو اثرانداز نہ ہونے دینا ہے۔ اور اگر آپ سزا دینے یا معاف کرنے کی پوزیشن میں ہوں تو یہ کام اور بھی اہم ہوجاتا ہے۔
سزا کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ وہی جرم نہ کریں۔ سزا میں پہلے آپ کو آپ کے کیے کا بدلہ ملتا ہے، اور پھر آپ کی بحالی اور اصلاح ہوتی ہے۔ ایک دفعہ جب آپ یہ سب کام کر چکیں، تو معاشرے میں آپ کی واپسی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد آپ کے خاندان، دوستوں، ساتھیوں، کالجوں، اور معاشرے کو آپ کا کھلی بانہوں سے استقبال کرنا چاہیے، اور آپ کے ماضی پر تنقید کیے بغیر، یا آپ سے امتیازی سلوک کیے بغیر آپ کو معاشرے میں گھل مل جانے میں مدد کرنی چاہیے۔
سلمان بٹ نے ڈومیسٹک کرکٹ میں واپسی پر شاندار کارکردگی دکھائی ہے، جبکہ قائدِ اعظم ٹرافی کے فائنل میں ان کی ڈبل سنچری نے ان کا کیس اور بھی مضبوط کر دیا ہے۔
مگر اب اظہر علی اور سمیع اسلم کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے، اور شرجیل خان کو بیک اپ کے طور پر رکھا گیا ہے۔ محمد حفیظ، خالد لطیف، اور احمد شہزاد بھی اپنی باری کے منتظر ہیں۔
محمد آصف 34 سال کے ہیں اور شاید ان کی ٹانگیں اب ویسی نہیں رہیں جن پر پاکستان کرکٹ کو طویل مدت کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ مگر جادو ان کی ٹانگوں میں نہیں ان کی کلائیوں میں ہے۔ اور صرف ایک جاندار اسپیل کروانے کی دیر ہے کہ آپ بھی قومی ٹیم میں ان کی واپسی کی حمایت کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
محمد طلحہ اور احسان عادل قومی ٹیم میں شمولیت کے منتظر ہیں جبکہ آل راؤنڈرز بلاول بھٹی اور سہیل تنویر بھی مختصر فارمیٹس میں کھیل کے لیے موزوں ہیں۔
مگر یہ جنید خان کی انجری کے بعد واپسی ہے جس سے سلیکٹرز پاکستانی باؤلنگ لائن کے مضبوط ہونے کی توقع کر سکتے ہیں۔
اگر پی سی بی آصف اور بٹ کو واپس آنے کا موقع دے، تو یہ بغیر کسی تعصب کے ہونا چاہیے۔ سلیکشن کمیٹی کے فیصلوں کو کارکردگی پر منحصر ہونا چاہیے، نہ کہ گزر چکے واقعات پر۔
امید ہے کہ انصاف کیا جائے گا۔
شان آغا بچپن سے ہی کھیلوں سے عقیدت کی حد تک دلچسپی رکھتے ہیں اس قدر کہ ’’دی کرکٹر’’ میگزین کے اوراق کو نہایت مقدس مانتے ہیں۔
ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: گیم آن
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔