دنیا

سہ فریقی اجلاس میں افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں پرتشویش

پاکستان، چین اور روس نے افغانستان میں داعش سمیت دہشت گرد گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے خبردار کیا۔

روس، چین اور پاکستان نے افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے خبردار کرتے ہوئے امن وامان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ماسکو میں روس، چین اور پاکستان کے درمیان افغانستان کی صورت حال پر منعقدہ سہہ فریقی اجلاس کے تیسرے مرحلے کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخاروف نے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا کہ 'تینوں ممالک نے افغانستان میں داعش سمیت دہشت گردگروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے'۔

ماریا زخاروف نے کہا کہ روس، چین اور پاکستان نے افغانستان کی بگڑتی سیکیورٹی کی صورت حال سے متنبہ کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تینوں ممالک نے کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں حائل کارئوٹوں کو ہٹانے کے لیے لچکدار رویہ اپنانے پر بھی اتفاق کیا'۔

خیال رہے کہ رواں سال افغانستان کے کئی صوبوں کے مراکز، طالبان کے خلاف لڑائی میں فوج کے بہت زیادہ نقصان پر دبائو میں آئے تھے کیونکہ 2016 کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران 5 ہزار 500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

افغان صدر اشرف غنی نے گزشتہ ماہ طالبان کے نئے سربراہ کے نام کو پابندی کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے اپیل کی تھی۔

مزید پڑھیں: ماسکومیں سہ فریقی مذاکرات سے افغانستان کو تشویش

روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تینوں ممالک کے نمائندوں نے مستقبل میں اس طرح کے مذاکرات میں شمولیت کے لیے افغانستان کو دعوت دینے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

واضح رہے کہ افغان وزارت خارجہ کے ترجمان نے سہ فریقی مذاکرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم سے مشورہ کیے بغیرافغانستان کے حوالے سے بات چیت کرنا افغان عوام کے لیے سوالات اٹھتے ہیں، ہم اس حوالے سے پریشان ہیں کہ اجلاس کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور متعلقہ فریقین کو کیا وضاحت کرنا چاہتے ہیں'۔

دوسری جانب مذاکرات میں امریکا کو بھی دعوت نہیں دی گئی تھی حالانکہ افغانستان میں امریکا کے 10 ہزار کے قریب فوجی موجود ہیں۔

واشنگٹن اور کابل کے حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ روس، افغان حکومت کے خلاف لڑنے والے طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کررہا ہے جبکہ ماسکو کی جانب سے شدت پسندوں کی کسی قسم کی مدد کے الزام کو مسترد کردیا گیا تھا۔

روسی خبررساں ادارے کے مطابق پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزازاحمد چوہدری کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کو طالبان سے مذاکرات کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کرنی چاہیے جو ملک میں امن کے حصول کے لیے ضروری ہے۔