پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین جاری دوسرے ٹیسٹ میچ میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کا خوبصورت منظر— فوٹو: اے پی
چونکہ یہ تحائف ڈبوں میں پیک ہوتے ہیں، اس لیے 26 دسمبر کے ٹیسٹ میچ پر 'باکسنگ ڈے' نام رکھا گیا۔
ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ باکسنگ ڈے ٹیسٹ صرف اور صرف آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں ہی کھیلا جاتا ہے، کسی اور میدان کو یہ عزت و اہمیت نصیب نہیں ہوئی۔
باکسنگ ڈے ٹیسٹ کے یادگار سفر سے کئی خوشگوار یادیں اور تاریخی لمحات جڑے ہیں۔ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر ہر نئے دور میں کرکٹ کی نئے باب لکھے گئے۔
بہت سے مایہ ناز کھلاڑیوں نے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں کچھ ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ وہ تاریخ میں امر ہو گئے۔
جب للی نے رچرڈز کی وکٹیں اڑائی
26 دسمبر 1981 کا وہ باکسنگ ڈے ٹیسٹ کسی خوفناک فلم سے کم سنسنی خیز نہ تھا، جہاں اپنے وقت کی طاقتور ویسٹ انڈین ٹیم سے کینگروز نبرد آزما ہو رہے تھے۔
اس میچ سے قبل کالی آندھی کے کپتان کلائیو لائیڈ کو لگاتار 15 ٹیسٹ میچوں میں ناقابل شکست رہنے کا اعزاز حاصل تھا۔
ویسٹ انڈیز کا باؤلنگ اٹیک اینڈی رابرٹس، مائیکل ہولڈنگ، جوئیل گارنر اور کولن کرافٹ پر مشتمل تھا، جن سے بڑے بڑے بلے باز تھرتھر کانپتے تھے۔
دوسری جانب آسٹریلیا کو اپنے اسپیڈ اسٹار ڈینس للی پر ناز تھا، جسے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کے ہزاروں تماشائی بھی بھرپور سپورٹ کر رہے تھے۔
آسٹریلیا کے کپتان گریگ چیپل نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو کچھ دیر ہی دیر میں صرف 8 رنز پر 3 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔ کپتان چیپل نے کھاتہ بھی نہ کھولا۔
جب ایلن بارڈر کریز سے رخصت ہوئے تو میزبان ٹیم کا اسکور 4 وکٹوں پر 26 تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ آسٹریلوی ٹیم لنچ سے پہلے ڈھیر ہوجائے گی، لیکن ایسے میں کم ہیوز مرد بحران ثابت ہوئے۔
ہیوز نے شاندار سنچری اسکور بنا کر آسٹریلیا کو مکمل تباہی سے بچالیا۔ وہ ٹیم کا اسکور 198 رنز تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ مائیکل ہولڈنگ نے 45 رنز دے کر آسٹریلیا کی آدھی ٹیم کو چلتا کیا۔
ویسٹ انڈیز کی شہرہ آفاق بیٹنگ لائن کے آگے یہ اسکور انتہائی حقیر محسوس ہوتا تھا کہ لیکن پھر ڈینس للی نے کیریئر کی یادگار بالنگ پرفارمنس سے مہمان ٹیم کی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کردیا۔ انہوں نے ڈیسمنڈ ہینز کو ایک رن سے آگے بڑھنے نہ دیا۔
نائٹ واچ مین کولن کرافٹ کو کھاتا کھولنے کا موقع نہ ملا اور اوپنر فیئد بیکس کی بھی للی کے آگے دال نہ گلی۔ پہلے دن کی آخری گیند پر للی نے سر ووین رچرڈز کی وکٹیں اڑا کر گویا بازی پلٹ دی۔
دوسرے دن ویسٹ انڈیز نے 10 رنز 4 کھلاڑی آؤٹ سے اپنی پہلی اننگز کو آگے بڑھایا تو 201 رنز پر قصہ تمام ہوگیا۔ گومز کی ففٹی کے علاوہ کسی بیٹسمین نے 50 کا ہندسہ عبور نہ کیا۔ ڈینس للی نے 83 رنز دے کر 7 بلے بازوں کو واپسی کی راہ دکھائی۔
آسٹریلیا نے دوسری اننگز میں قدرے بہتر بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 222 رنز بنائے، جس میں ایلن بارڈر اور لیئرڈ کی نصف سینچریاں شامل تھیں۔ مائیکل ہولڈنگ پھر سے 6 وکٹیں لے کر نمایاں رہے۔
ویسٹ انڈیز کو جیتنے کے لیے 220 رنز کا ہدف ملا لیکن میچ کے پانچویں اور آخری دن 161 رنز پر پوری ٹیم کا شیرازہ بکھر گیا۔
اس بار بھی ڈینس للی نے کاری ضرب لگاتے ہوئے 3 شکار کیے اور مجموعی طور پر میچ میں 127 رنز کے عوض 10 وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے۔
آسٹریلیا نے یہ میچ 58 رنز سے جیت کر نہ صرف ٹیسٹ سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کی بلکہ کلائیو لائیڈ کی لگاتار 15 کامیابیوں کے آگے فل اسٹاپ بھی لگایا۔
بارڈر اور تھامسن کی یادگار شراکت
میلبرن گراؤنڈ پر ویسے تو کئی سنسنی خیز مقابلے ہوئے ہیں، لیکن سال 1982 کا وہ ٹیسٹ میچ کون بھول سکتا ہے جس میں ایلن بارڈر اور جیف تھامسن نے آخری وکٹ پر 70 رنز کی شراکت داری کی لیکن پھر بھی انگلینڈ 3 رنز سے میچ جیت گیا۔
انگلینڈ نے بیٹنگ کی دعوت ملنے پر اپنی پہلی اننگز میں جیمزتوارے اور ایلن لمب کی نصف سینچریوں کی بدولت 284 رنز بنائے۔ جواب میں آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگز میں انگلینڈ سے 3 رنز زیادہ یعنی 287 کا مجموعہ ترتیب دیا۔ کم ہیوز، راڈنی مارش اور ہوکس ففٹی پلس اسکور کرنے میں کامیاب رہے۔
مہمان برطانوی ٹیم اپنی دوسری باری میں 294 رنز پر آئوٹ ہوئی اور آسٹریلیا کو میچ جیتنے کے لیے 292 کا ہدف دیا۔
یہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے مابین کھیلا جانے والا 250 واں ٹیسٹ میچ تھا جسے ایلن بارڈر، جیف تھامسن اور انگلش باؤلرز نے یادگار بنایا۔ 292 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے آسٹریلیا نے 218 رنز پر 9 وکٹیں گنوا دی۔
ایسی صورتحال میں انگلینڈ کی فتح یقینی نظر آنے لگی تھی، لیکن آخری وکٹ پر ایلن بارڈر اور گیارہویں بلے باز جیف تھامسن نے ہمت نہ ہاری۔ دوںوں نے ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے تگ و دو شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے منزل کے بالکل قریب آگئے۔
جب آسٹریلوی ٹیم فتح سے صرف تین رنز کی دوری پر تھی تو ای این بوتھم نے جیف تھامسن کو جیفری ملر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کروا کر میچ کا نقشہ بدل دیا اور انگلینڈ نے اتار چڑھاؤ سے بھرپور اس میچ میں کینگروز کے منہ سے یقینی فتح چھین لی۔
شین وارن کی ہیٹ ٹرک
یہ دسمبر 1994 کی ایشز سیریز تھی، جب آسٹریلیا کے جادوگر لیگ اسپنر شین وارن نے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں اپنی پہلی ہیٹ ٹرک مکمل کر کے ٹیم کو 295 رنز کی بڑی فتح سے ہمکنار کیا۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی 21 ویں ہیٹ ٹرک تھی۔
دوسرے ٹیسٹ کے پانچویں اور آخری دن انگلش ٹیم 388 رنز کا مشکل ہدف حاصل کرنے کی جستجو میں تھی، ایسے میں شین وارن نے ہیٹ ٹرک کر کے مہمان ٹیم کو صرف 92 رنز پر منہ کے بل گرادیا۔
نان اسٹرائیکرز اینڈ پر ایلک اسٹیورٹ حسرت و یاس کی تصویر بنے کھڑے رہے، جبکہ فل ڈیفریٹاس، ڈیرن گاف اور ڈیون میلکم لگاتار تین گیندوں پر شین وارن کے ہاتھوں ہائی جیک ہو کر پویلین جا پہنچے۔
شین وارن نے دوسری اننگز میں صرف 16 رنز دے کر تین وکٹوں کا سستا سودا کیا جبکہ مجموعی طور پر میچ میں 80 رنز دے کر 9 وکٹیں لینے میں کامیاب رہے۔ یہ آسٹریلیا کے کسی باؤلر کی ٹیسٹ کرکٹ میں 90 برس کے بعد پہلی ہیٹ ٹرک تھی۔
اس ہیٹ ٹرک نے شین وارن کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا اور بشمول انگلینڈ ٹیم، دنیا کی سبھی حریف کرکٹ ٹیموں پر ان کی سحر انگیز لیگ اسپن کی دہشت بیٹھ گئی۔
آسٹریلیا نے ایشز کا کامیاب دفاع کرتے ہوئے انگلینڈ کو سیریز میں چار ایک سے شکست دی۔ شین وارن نے سیریز میں 27 شکار کیے۔
جب ڈیرل ہیئر نے مرلی دھرن پر تھرو کا الزام لگایا
سنہ 1995 کے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہیئر نے سری لنکا کے آف اسپنر مرلی دھرن کی 7 گیندوں کو 'نو بال' قرار دے کر بہت بڑا تنازع کھڑا کیا۔
ڈیرل ہیئر نے مرلی پر تھرو بال پھینکنے کا الزام لگاتے ہوتے انہیں باؤلنگ سے روک دیا جس سے 23 سالہ مرلی دھرن اور ان کی پوری ٹیم ہکا بکا رہ گئی۔
مرلی دھرن اس سے پہلے 22 ٹیسٹ میچوں میں 80 وکٹیں لے چکے تھے، وہ میچ کے دوسرے دن باؤلنگ کروا رہے تھے کہ تین مختلف اوورز کے دوران ڈیرل ہیئر نے مرلی کی 7 گیندوں کو 'نو بال' اور غیر قانونی قرار دیا۔