کھیل

باکسنگ ڈے ٹیسٹ کی تاریخ اور یادگار لمحات

کسی ٹیسٹ میچ کا نام 'باکسنگ ڈے' سن کر اکثر لوگ اس کو باکسنگ کے کھیل سے جڑا کوئی اہم دن سمجھتے ہیں لیکن ایسا پرگز نہیں ہے

باکسنگ ڈے ٹیسٹ کی روایت لگ بھگ 140 برس پرانی ہے۔

دسمبر کے مہینے میں اگر کوئی کرکٹ ٹیم کینگروز کے دیس میں مہمان بن کر آئی ہو تو 26 دسمبر یعنی کرسمس ڈے کے اگلے دن آسٹریلیا اور مہمان ٹیم کے مابین ٹیسٹ میچ ضرور کھیلا جاتا ہے، جسے 'باکسنگ ڈے' ٹیسٹ کہتے ہیں۔

19 ویں صدی میں کھیلے گئے پہلے باکسنگ ڈے ٹیسٹ سے آج تک کرکٹ کا یہ سہانہ سفر ہنوز رواں دواں ہے۔

آسٹریلیا کے شہری باکسنگ ڈے کے حوالے سے بے حد پرجوش ہوتے ہیں، گویا یہ عید کا دن ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو 26 دسمبر کا انتظار پورا سال رہتا ہے۔

'باکسنگ ڈے' نام کیسے پڑا؟

کسی ٹیسٹ میچ کا نام 'باکسنگ ڈے' سن کر کافی لوگ تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ ایسا نام رکھنے سے کیا مراد ہے۔ اکثر لوگ اس کو باکسنگ کے کھیل سے جڑا کوئی اہم دن سمجھتے ہیں۔

درحقیقت 19 ویں صدی سے برطانوی شاہی خاندان کا یہ معمول رہا ہے کہ کرسمس ڈے کے اگلے دن شاہی محل کے ملازمین اورغریب و مستحق لوگوں کو ولی عہد اور ملکہ کچھ تحائف دیتے ہیں۔

پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین جاری دوسرے ٹیسٹ میچ میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کا خوبصورت منظر— فوٹو: اے پی

چونکہ یہ تحائف ڈبوں میں پیک ہوتے ہیں، اس لیے 26 دسمبر کے ٹیسٹ میچ پر 'باکسنگ ڈے' نام رکھا گیا۔

ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ باکسنگ ڈے ٹیسٹ صرف اور صرف آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں ہی کھیلا جاتا ہے، کسی اور میدان کو یہ عزت و اہمیت نصیب نہیں ہوئی۔

باکسنگ ڈے ٹیسٹ کے یادگار سفر سے کئی خوشگوار یادیں اور تاریخی لمحات جڑے ہیں۔ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر ہر نئے دور میں کرکٹ کی نئے باب لکھے گئے۔

بہت سے مایہ ناز کھلاڑیوں نے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں کچھ ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ وہ تاریخ میں امر ہو گئے۔

جب للی نے رچرڈز کی وکٹیں اڑائی

26 دسمبر 1981 کا وہ باکسنگ ڈے ٹیسٹ کسی خوفناک فلم سے کم سنسنی خیز نہ تھا، جہاں اپنے وقت کی طاقتور ویسٹ انڈین ٹیم سے کینگروز نبرد آزما ہو رہے تھے۔

اس میچ سے قبل کالی آندھی کے کپتان کلائیو لائیڈ کو لگاتار 15 ٹیسٹ میچوں میں ناقابل شکست رہنے کا اعزاز حاصل تھا۔

ویسٹ انڈیز کا باؤلنگ اٹیک اینڈی رابرٹس، مائیکل ہولڈنگ، جوئیل گارنر اور کولن کرافٹ پر مشتمل تھا، جن سے بڑے بڑے بلے باز تھرتھر کانپتے تھے۔

دوسری جانب آسٹریلیا کو اپنے اسپیڈ اسٹار ڈینس للی پر ناز تھا، جسے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کے ہزاروں تماشائی بھی بھرپور سپورٹ کر رہے تھے۔

آسٹریلیا کے کپتان گریگ چیپل نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو کچھ دیر ہی دیر میں صرف 8 رنز پر 3 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔ کپتان چیپل نے کھاتہ بھی نہ کھولا۔

جب ایلن بارڈر کریز سے رخصت ہوئے تو میزبان ٹیم کا اسکور 4 وکٹوں پر 26 تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ آسٹریلوی ٹیم لنچ سے پہلے ڈھیر ہوجائے گی، لیکن ایسے میں کم ہیوز مرد بحران ثابت ہوئے۔

ہیوز نے شاندار سنچری اسکور بنا کر آسٹریلیا کو مکمل تباہی سے بچالیا۔ وہ ٹیم کا اسکور 198 رنز تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ مائیکل ہولڈنگ نے 45 رنز دے کر آسٹریلیا کی آدھی ٹیم کو چلتا کیا۔

ویسٹ انڈیز کی شہرہ آفاق بیٹنگ لائن کے آگے یہ اسکور انتہائی حقیر محسوس ہوتا تھا کہ لیکن پھر ڈینس للی نے کیریئر کی یادگار بالنگ پرفارمنس سے مہمان ٹیم کی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کردیا۔ انہوں نے ڈیسمنڈ ہینز کو ایک رن سے آگے بڑھنے نہ دیا۔

نائٹ واچ مین کولن کرافٹ کو کھاتا کھولنے کا موقع نہ ملا اور اوپنر فیئد بیکس کی بھی للی کے آگے دال نہ گلی۔ پہلے دن کی آخری گیند پر للی نے سر ووین رچرڈز کی وکٹیں اڑا کر گویا بازی پلٹ دی۔

دوسرے دن ویسٹ انڈیز نے 10 رنز 4 کھلاڑی آؤٹ سے اپنی پہلی اننگز کو آگے بڑھایا تو 201 رنز پر قصہ تمام ہوگیا۔ گومز کی ففٹی کے علاوہ کسی بیٹسمین نے 50 کا ہندسہ عبور نہ کیا۔ ڈینس للی نے 83 رنز دے کر 7 بلے بازوں کو واپسی کی راہ دکھائی۔

آسٹریلیا نے دوسری اننگز میں قدرے بہتر بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 222 رنز بنائے، جس میں ایلن بارڈر اور لیئرڈ کی نصف سینچریاں شامل تھیں۔ مائیکل ہولڈنگ پھر سے 6 وکٹیں لے کر نمایاں رہے۔

ویسٹ انڈیز کو جیتنے کے لیے 220 رنز کا ہدف ملا لیکن میچ کے پانچویں اور آخری دن 161 رنز پر پوری ٹیم کا شیرازہ بکھر گیا۔

اس بار بھی ڈینس للی نے کاری ضرب لگاتے ہوئے 3 شکار کیے اور مجموعی طور پر میچ میں 127 رنز کے عوض 10 وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے۔

آسٹریلیا نے یہ میچ 58 رنز سے جیت کر نہ صرف ٹیسٹ سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کی بلکہ کلائیو لائیڈ کی لگاتار 15 کامیابیوں کے آگے فل اسٹاپ بھی لگایا۔

بارڈر اور تھامسن کی یادگار شراکت

میلبرن گراؤنڈ پر ویسے تو کئی سنسنی خیز مقابلے ہوئے ہیں، لیکن سال 1982 کا وہ ٹیسٹ میچ کون بھول سکتا ہے جس میں ایلن بارڈر اور جیف تھامسن نے آخری وکٹ پر 70 رنز کی شراکت داری کی لیکن پھر بھی انگلینڈ 3 رنز سے میچ جیت گیا۔

انگلینڈ نے بیٹنگ کی دعوت ملنے پر اپنی پہلی اننگز میں جیمزتوارے اور ایلن لمب کی نصف سینچریوں کی بدولت 284 رنز بنائے۔ جواب میں آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگز میں انگلینڈ سے 3 رنز زیادہ یعنی 287 کا مجموعہ ترتیب دیا۔ کم ہیوز، راڈنی مارش اور ہوکس ففٹی پلس اسکور کرنے میں کامیاب رہے۔

مہمان برطانوی ٹیم اپنی دوسری باری میں 294 رنز پر آئوٹ ہوئی اور آسٹریلیا کو میچ جیتنے کے لیے 292 کا ہدف دیا۔

یہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے مابین کھیلا جانے والا 250 واں ٹیسٹ میچ تھا جسے ایلن بارڈر، جیف تھامسن اور انگلش باؤلرز نے یادگار بنایا۔ 292 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے آسٹریلیا نے 218 رنز پر 9 وکٹیں گنوا دی۔

ایسی صورتحال میں انگلینڈ کی فتح یقینی نظر آنے لگی تھی، لیکن آخری وکٹ پر ایلن بارڈر اور گیارہویں بلے باز جیف تھامسن نے ہمت نہ ہاری۔ دوںوں نے ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے تگ و دو شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے منزل کے بالکل قریب آگئے۔

جب آسٹریلوی ٹیم فتح سے صرف تین رنز کی دوری پر تھی تو ای این بوتھم نے جیف تھامسن کو جیفری ملر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کروا کر میچ کا نقشہ بدل دیا اور انگلینڈ نے اتار چڑھاؤ سے بھرپور اس میچ میں کینگروز کے منہ سے یقینی فتح چھین لی۔

شین وارن کی ہیٹ ٹرک

یہ دسمبر 1994 کی ایشز سیریز تھی، جب آسٹریلیا کے جادوگر لیگ اسپنر شین وارن نے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں اپنی پہلی ہیٹ ٹرک مکمل کر کے ٹیم کو 295 رنز کی بڑی فتح سے ہمکنار کیا۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی 21 ویں ہیٹ ٹرک تھی۔

دوسرے ٹیسٹ کے پانچویں اور آخری دن انگلش ٹیم 388 رنز کا مشکل ہدف حاصل کرنے کی جستجو میں تھی، ایسے میں شین وارن نے ہیٹ ٹرک کر کے مہمان ٹیم کو صرف 92 رنز پر منہ کے بل گرادیا۔

نان اسٹرائیکرز اینڈ پر ایلک اسٹیورٹ حسرت و یاس کی تصویر بنے کھڑے رہے، جبکہ فل ڈیفریٹاس، ڈیرن گاف اور ڈیون میلکم لگاتار تین گیندوں پر شین وارن کے ہاتھوں ہائی جیک ہو کر پویلین جا پہنچے۔

شین وارن نے دوسری اننگز میں صرف 16 رنز دے کر تین وکٹوں کا سستا سودا کیا جبکہ مجموعی طور پر میچ میں 80 رنز دے کر 9 وکٹیں لینے میں کامیاب رہے۔ یہ آسٹریلیا کے کسی باؤلر کی ٹیسٹ کرکٹ میں 90 برس کے بعد پہلی ہیٹ ٹرک تھی۔

اس ہیٹ ٹرک نے شین وارن کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا اور بشمول انگلینڈ ٹیم، دنیا کی سبھی حریف کرکٹ ٹیموں پر ان کی سحر انگیز لیگ اسپن کی دہشت بیٹھ گئی۔

آسٹریلیا نے ایشز کا کامیاب دفاع کرتے ہوئے انگلینڈ کو سیریز میں چار ایک سے شکست دی۔ شین وارن نے سیریز میں 27 شکار کیے۔

جب ڈیرل ہیئر نے مرلی دھرن پر تھرو کا الزام لگایا

سنہ 1995 کے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہیئر نے سری لنکا کے آف اسپنر مرلی دھرن کی 7 گیندوں کو 'نو بال' قرار دے کر بہت بڑا تنازع کھڑا کیا۔

ڈیرل ہیئر نے مرلی پر تھرو بال پھینکنے کا الزام لگاتے ہوتے انہیں باؤلنگ سے روک دیا جس سے 23 سالہ مرلی دھرن اور ان کی پوری ٹیم ہکا بکا رہ گئی۔

مرلی دھرن اس سے پہلے 22 ٹیسٹ میچوں میں 80 وکٹیں لے چکے تھے، وہ میچ کے دوسرے دن باؤلنگ کروا رہے تھے کہ تین مختلف اوورز کے دوران ڈیرل ہیئر نے مرلی کی 7 گیندوں کو 'نو بال' اور غیر قانونی قرار دیا۔

متیاہ مرلی دھرن کا 800 وکٹیں لینے پر ایک انداز— فوٹو: اے ایف پی

سری لنکن کپتان ارجنا رانا ٹنگا نے امپائر ڈیرل ہیئر سے دو مرتبہ بات کر کے ان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے، بالاَخر رانا ٹنگا کے صبر کا پیمانہ مبریز ہو گیا اور وہ ٹیم کو میدان سے باہر لے گئے لیکن پھر بات چیت کے بعد انہیں اپنے سب سے اہم ہتھیار کو باؤلنگ سے ہٹانا پڑا۔

میچ میں سری لنکا کی ٹیم فالو آن کا شکار ہوئی اور آسٹریلیا 10 وکٹ سے کامیاب رہا۔

بعد ازاں مرلی دھرن کے باؤلنگ ایکشن کا معائنہ کیا گیا، جس میں ان کو کلین چٹ ملی اور لیجنڈ آف اسپنر نے 133 ٹیسٹ میچوں میں 800 وکٹیں لے کر تاریخ رقم کی۔

میلبرن کے اس ٹیسٹ میچ کے بعد مرلی دھرن اور ڈیرل ہیئر کا کبھی کرکٹ میدان میں آمنا سامنا نہیں ہوا۔

متنازع ڈیرل ہیئر نے سال 2006 کے اوول ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم پر بھی 'بال ٹیمپرنگ' کا الزام عائد کیا لیکن پھر پے درہے تنازعات کے سبب آئی سی سی نے ان کو ایلیٹ پینل سے ہی نکال دیا۔

شین وارن کی 700 وکٹوں کا جشن

سنہ 2006 کی ایشز سیریز میں انگلینڈ کے خلاف کھیلے گئے چوتھے اور باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں شین وارن نے اپنے کیریئر کی 700 وکٹیں مکمل کر کے میلبرن گراؤنڈ پر اپنے الوداعی میچ کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔

وہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں 700 وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے باؤلر کے اعزاز اور عالمی ریکارڈ کے مالک بنے۔

شین وارن نے پہلی اننگز میں 3 اور گلین میک گرا نے 4 شکار کیے جس کے باعث انگلینڈ کی پوری ٹیم پہلے ہی دن 159 رنز پر پویلین لوٹ گئی۔

آسٹریلیا نے میتھیو ہیڈن اور اینڈریو سائمنڈز کے سینچریوں کی بدولت پہلی اننگز میں 419 رنز اسکور کیے۔

انگلینڈ ٹیم کا دوسری اننگز میں بھی وہی حال رہا اور پوری ٹیم نے 161 رنز پر ہتھیار ڈال دیے۔ یوں آسٹریلیا نے یہ میچ ایک اننگز اور 99 رنز سے جیت کر سیریز میں چار صفر کی ناقابل شکست برتری حاصل کی۔

دوسری اننگز میں شین وارن کے حصے میں 2 وکٹیں آئی۔ انگلینڈ کے اوپنر اینڈریو اسٹراس ان کے 700 ویں شکار بنے۔

میلبرن گراؤنڈ میں لگ بھگ 90 ہزار شائقین نے اپنے ہیرو کو فقید المثال انداز میں رخصت کیا۔

گو کہ مرلی دھرن نے بعد ازاں ٹیسٹ میں 800 وکٹوں کا سنگ میل عبور کر کے شین وارن کا ریکارڈ توڑا، لیکن انہوں نے شین وارن کو خود سے بہتر اسپنر قراردیا۔

میلبرن کا مرد بحران محسن حسن خان

پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین جاری ٹیسٹ سیریز کے آغاز میں اسد شفیق نے برسبین میں جو دلیرانہ سینچری لگائی اس کو دیکھ کر نہ جانے کیوں خیالوں میں سنہ 1983 کے دورہ آسٹریلیا اور باکسنگ ڈے ٹیسٹ کا ایک ان دیکھا تصور منڈلانے لگا، جب محسن خان نے بالکل اسی طرح قومی ٹیم کی کمزور بیٹنگ کو سہارا دیا تھا۔

محسن حسن خان ہندوستانی اداکارہ رینا رائے کے ساتھ، بعد میں دونوں نے شادی کر لی تھی۔

اگرچہ اس باکسنگ ڈے ٹیسٹ کا نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا مگر سیریز میں 0-1 کے خسارے کا شکار پاکستانی ٹیم کے لیے وہ ڈرا میچ بھی غنیمت سے کم نہ تھا۔

شاہیںوں کو کینگروز کے خلاف پہلی بار 5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز اور باکسنگ ڈے ٹیسٹ کھیلنے کا تجربہ 1983 میں ہی ہوا۔ سیریز کی شروعات اچھی نہ تھی، پہلے ہی ٹیسٹ میں ناکامی ملی۔ آسٹریلیا نے ایک اننگز اور 9 رنز سے میچ جیتا۔

ابتدائی شکست کے بعد دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ کا نتیجہ ڈرا کی صورت میں نکلا۔ ایڈیلیڈ میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ کی خاص بات محسن خان کی سینچری تھی۔ اسٹائلش اوپنر نے 149 رنز کی دلکش اننگز کھیل کر اپنے ٹیلنٹ سے بھرپور انصاف کیا۔

جب میلبرن میں پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیمیں سیریز کے چوتھے معرکے میں نبرد آزما ہوئی تو محسن خان نے ایڈیلیڈ ٹیسٹ کی بہترین فارم کو برقرار رکھتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھایا۔

انہوں نے باکسنگ ڈے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سیریز کی دوسری سنچری داغ دی۔ پاکستان کے 470 کے مجموعے میں محسن خان کے 152 رنز شامل تھے۔ انہوں نے 354 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 18 چوکے اور ایک فلک بوس چھکا لگایا۔

میزبان آسٹریلیا نے بھرپور جواب دیتے ہوئے پہلی اننگز میں 555 رنز بنائے، جس میں گراہم ییلوپ نے ڈبل سینچری جڑ دی اور 268 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ ییلوپ نے اپنی میراتھن اننگز کے دوران وکٹ کے چاروں طرف آزادانہ شاٹ کھیلتے ہوئے 29 چوکے لگائے۔

محسن خان کے 152 رنز اور گراہم ییلوپ کی ڈبل سینچری اننگز سے شائقین نے بھرپور لطف اٹھایا۔ دونوں ٹیموں کی ایک ایک اننگز مکمل ہونے میں ٹیسٹ میچ کے 4 دن صرف ہوگئے۔

پاکستان نے اپنی دوسری اننگز میں 5 وکٹوں پر 238 رنز بنائے تھے کہ پانچویں دن کا سورج بھی غروب ہوگیا۔ یوں ٹیسٹ سیریز میں مسلسل تیسرا میچ ڈرا ہوا لیکن آسٹریلیا کو ایک صفر کی برتری حاصل تھی۔

پانچویں ٹیسٹ میں کینگروز نے 10 وکٹوں سے فتح سمیٹ کر پاکستان کو سیریز میں 0-2 شکست دی۔ ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کے لیے محسن خان کی بیٹنگ ایک مثبت پہلو بن کر سامنے آیا۔ انہوں نے 5 ٹیسٹ میچوں کی 9 اننگز میں دو بار سینچری بنائی اور 33.43 کی اوسط سے 390 رنز بنائے۔

محسن خان تاحال باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں سب سے بڑی اننگز کھیلنے والے پاکستانی بلے باز ہیں اور آسٹریلوی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز کے دوران 2 سنچریاں بنانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔

کیا پتہ حالیہ ٹیسٹ سیریز میں کوئی پاکستانی بلے باز محسن خان کا ہم پلہ ہوجائے یا ان سے آگے نکل جائے۔ بہرحال، امید پر دنیا قائم ہے۔