نقطہ نظر

پہلے خط سے آخری ملاقات تک بے نظیر

مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کی مشرف سے فون پر سخت بات چیت ہوئی ہے۔ یہ تمام تفصیلات مجھے ان کے قتل کے بعد معلوم ہوئیں۔

اگر ان کی جدوجہد سے بھرپور روشن زندگی کا اس طرح خاتمہ نہ کر دیا جاتا تو آج وہ 63 سال کی ہوتیں۔ ہم نے انہیں 9 سال قبل کھو دیا تھا۔

اب جبکہ ہمارا ملک تاریخ کے اکھاڑے میں کسی کپتان کے بغیر جہاز کی طرح ڈول رہا ہے، تو میں سوچتا ہوں کہ بینظیر نے بطور رہنما — سیاستدان، ماں، بیوی، بہن اور ایک انسان — کے ہماری رہنمائی کس طرح کی ہوتی۔

میری ان سے پہلے ملاقات 1991 میں کراچی میں ایک سفارتی تقریب میں ہوئی جب میں ایک نوجوان سفارتی رپورٹر تھا۔ وہ میڈیا کی آنکھوں کا تارا تھیں۔ جب بھی وہ کسی تقریب میں جاتیں، تو تمام آنکھیں اور کان بس ان کی ہی جانب لگے ہوتے۔

1992 میں ایک دن جب میں دی نیوز انٹرنیشنل کے رپورٹرز روم میں داخل ہوا تو ان کی جانب سے ایک خط میرا منتظر تھا۔ یہ نجمہ صدیقی کی ادارت میں نکلنے والے دی نیوز کے میگزین کی کَور اسٹوری کے بارے میں تھا، جو سندھ میں خودکشیوں کی لہر کے بارے میں تھی۔

اسٹوری کے مطابق سندھ میں قریب ایک درجن تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بیروزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کر لی تھی۔ بی بی نے قومی اسمبلی کے فلور پر میگزین لہراتے ہوئے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ مسئلے پر غور کرے۔ خط میں اس مسئلے کو سامنے لانے کے لیے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے بینظیر نے کہا تھا کہ نثار کھوڑو مجھ سے اسٹوری کے سلسلے میں رابطے میں رہیں گے۔

یہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف تھا۔

اگلے سال وہ دوبارہ وزیرِ اعظم بن گئیں۔

کئی سال بعد جب پرویز مشرف حکومت میں تھے اور بی بی جلاوطن تھیں، تو واشنگٹن ڈی سی میں ہماری دوبارہ ملاقات ہوئی۔ وہ ہر سال امریکا آتیں، کیپٹل ہل میں لوگوں سے ملتیں، تھنک ٹینکس اور صحافیوں سے ملاقاتیں کرتیں، میڈیا ہاؤسز کے دورے کرتیں اور اپنے پارٹی کارکنان سے ملاقاتیں کرتیں۔ ہماری ملاقات وائس آف امریکا کے دفتر میں ہوئی جہاں میں کام کرتا تھا۔

11 ستمبر کے بعد امریکا بھر میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔ ایک دن جب میں کوہن بلڈنگ، جہاں وائس آف امریکا کا دفتر ہے، میں داخل ہو رہا تھا تو میں نے انہیں گیٹ پر سیکیورٹی چیکنگ سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ انہیں اپنی تمام چیزیں بشمول ہینڈ بیگ کو ٹرے میں رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔ پھر انہیں جوتے اتار کر ٹرے میں رکھنے کے لیے کہا گیا۔

وہ گیٹ سے ننگے پیر گزریں۔ اس منظر کو دیکھتے ہوئے میں متضاد جذبات کے طوفان میں گھر گیا۔ آج تک مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس دن مجھے کیا ہوا تھا۔ مگر میں نے وائس آف امریکا کے حکام سے یہ ضرور کہا کہ ان سے مستقبل میں یہ سلوک نہ کیا جائے۔

وہ مجھے اپنے اہم حالات سے باخبر رکھتیں کیوں کہ میں جدہ میں رہنے والے نواز شریف کی طرح ان کے بھی زیادہ سے زیادہ انٹرویو کرنے لگا تھا۔ انہوں نے جنوری 2006 کے اوائل میں مجھے بتایا کہ وہ مہینے کے آخر تک واشنگٹن میں ہوں گی۔

میں نے اور فرح اصفہانی، جو وائس آف امریکا اردو ٹی وی کی سربراہ تھیں، نے مشورہ دیا کہ انہیں وائس آف امریکا میں ایک پریس کانفرنس کرنی چاہیے اور امریکی و بین الاقوامی میڈیا کو اس کی کوریج کے لیے مدعو کرنا چاہیے۔

بینظیر بھٹو 1987 میں لیاری میں اپنی شادی کے دوران۔ — فوٹو ڈان ڈاٹ کام۔

تاریخ فکس کر دی گئی۔ جمعرات 26 جنوری 2006۔ اس وقت کے وائس آف امریکا کے سربراہ ڈیوڈ جیکسن منصوبے سے باخبر تھے اور ہر کوئی اس کے لیے پرجوش تھے۔

پھر اچانک وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے 24 جنوری کو امریکا کا دورہ کیا اور صدر بش سے ملاقات کی۔ بس پھر کیا تھا، ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ (امریکی محکمہءِ داخلہ) نے وائس آف امریکا پر پروگرام منسوخ کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا۔ منطق یہ پیش کی گئی کہ پاکستانی وزیرِ اعظم کے دورہءِ امریکا کے صرف دو دن بعد وائس آف امریکا بینظیر بھٹو کو ایک سے زائد مسائل، بشمول دہشتگردی کی معاونت کرنے اور اس کے لیے امریکا سے امداد حاصل کرنے پر پاکستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہوگا، جس سے نہایت منفی اور متضاد تاثر جائے گا۔

ادھر پاکستانی سفارت خانہ بھی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے دباؤ ڈال رہا تھا، مگر ڈیوڈ جیکسن نے جھکنے سے انکار کر دیا اور پریس کانفرنس منسوخ نہیں کی۔

اس بات پر بینظر کو کافی حیرت بھی ہوئی جس کا اظہار انہوں نے بعد میں مجھے ایک ای میل میں کیا۔ بس ایک سمجھوتہ یہ ہوا کہ وائس آف امریکا میں ان کا استقبال وائس آف امریکا کے ڈائریکٹر کے بجائے اردو سروس کے سربراہ ڈاکٹر برائن سلور نے کرنا تھا۔

پریس کانفرنس سے چند دن قبل افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ بی بی اور آصف زرداری کی شادی ٹوٹنے کے قریب تھی اور وہ دونوں الگ الگ زندگی بسر کر رہے تھے۔

مشرف حکومت نے انٹرپول پر بینظیر اور ان کے شوہر آصف زرداری کو ریڈ نوٹسز جاری کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ واشنگٹن میں افواہیں تھیں کہ پریس کانفرنس کے لیے لینڈ کرتے ہی انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

صحافی مجھے فون کر کر کے پوچھتے رہے کہ آیا وہ آئیں گی بھی یا نہیں۔ میں نے ایونٹ سے ایک دن قبل ایک بے تاب صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہا کہ وہ چوڑیوں سے زیادہ ہتھکڑیوں سے آشنا ہیں، گرفتاری ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔

26 جنوری کی صبح کو کوہن بلڈنگ کے 'شارعِ آزادی' کے دروازے ایک طویل عرصے بعد کھولے گئے۔ ایسا صرف سربراہانِ مملکت اور اہم ترین شخصیات کے لیے کیا جاتا ہے۔ جب بی بی کی گاڑی رکی اور دروازے کھولے گئے تو وہ اور زرداری گاڑی سے اترے، اور ہاتھ تھامے ہوئے عمارت میں داخل ہوگئے۔

ہم نے ڈائس پر صرف ان کے بیٹھنے کے لیے ایک کرسی رکھی ہوئی تھی مگر ان کا اصرار تھا کہ زرداری کے لیے بھی ایک کرسی رکھی جائے۔ آخری منٹ پر ایک اور کرسی کا انتظام کرنے میں تھوڑی دقت ہوئی، مگر انہوں نے صرف تب ہی پریس کانفرنس سے خطاب کیا، اور انٹرپول نوٹسز کے معاملے پر مشرف حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔

"مجھے بتائیں کون سی عدالت ہے جو مجھے پاکستان میں دیکھنا چاہتی ہے، میں اگلی فلائٹ سے وہاں پہنچوں گی،"۔ اس دوران وہ میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کے جوابات بھی دیتیں رہیں۔ جس طرح وہ اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں افواہوں کا گلا گھونٹنے کے لیے زرداری کو سامنے لائیں، وہ بہت ہی اثرانگیز اور انوکھا انداز تھا۔

زرداری اور میں سندھ کے ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں مگر یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ میں ان کے نیویارک کے فون نمبر پر کال کرتا یا پھر وہ مجھے کر لیا کرتے تھے۔ ہم شاید ہی کبھی سیاست پر بات کرتے، زیادہ تر شاعری اور موسیقی، خصوصاً سندھی شاعری اور موسیقی پر بات چیت ہوا کرتی۔

کہتے ہیں کہ ان کا بینظیر کے ساتھ رویہ کافی توہین آمیز تھا، مگر میرا مشاہدہ اس کے الٹ ہے۔ جب بینظیر بھٹو نیویارک میں ہوتیں، تو وہ ہمیشہ کہتے کہ، "باس شہر میں ہی ہیں"۔ کون کس پر حکم چلاتا تھا، اس پر بھی بات کریں گے۔

2006 کی گرمیوں میں میں بینظیر کے نیویارک میں واقع اپارٹمنٹ گیا جہاں زرداری رہتے تھے۔ یہ ایک گرم دوپہر تھی۔ انٹرویو کے دوران لائٹس بھی جل رہی تھیں۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے میرے ایک سوال کے جواب کے اختتام پر مجھ سے کہا کہ، "کیا آپ کیمرا بند کریں گے؟"۔ مجھے لگا کہ وہ میرے کسی سوال پر غصہ ہو گئی ہیں مگر انہوں نے کہا کہ وہ ابھی واپس آجائیں گی۔

بینظیر بھٹو 17اکتوبر 2007 کو دبئی میں پریس کانفرنس کے لیے اپنی بیٹیوں سے ساتھ آتے ہوئے۔ — فوٹو اے ایف پی۔

وہ ایک جانب گئیں، اپنا سیل فون نکالا، اور ڈاکٹر کو فون کر کے اپنی بیٹی آصفہ کے بارے میں چند ہدایات دیں جنہیں علاج کی ضرورت تھی۔ چند منٹ بعد وہ انٹرویو میں واپس آ گئیں۔ "میں نے ڈاکٹر کو کہا تھا کہ میں ساڑھے تین بجے فون کروں گی، اس لیے مجھے کرنا تھا۔" ٹرین میں واشنگٹن ڈی سی واپس آتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ وہ کتنی آسانی سے سیاستدان سے ماں کے کردار میں اور پھر واپس ڈھل جاتی ہیں۔

9 اگست 2007 کو میں اپنا شو کرنے کے بعد میں اپنے دفتر میں واپس آ گیا۔ صبح کے ساڑھے گیارہ بجے میرا آفس کا فون بجا۔ کالر آئی ڈی پر 212 کا ایریا کوڈ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ کال نیویارک سے آ رہی ہے۔ لائن پر بینظیر بھٹو تھیں۔

"میں بینظر بات کر رہی ہوں۔" مجھے ان کی آمد کی اطلاع نہیں تھی اس لیے میں نے ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کب آئیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ میں کیا مدد کر سکتا ہوں۔ تقریباً تحکمانہ انداز میں انہوں نے کہا کہ "کل شام 5 بجے مین ہیٹن کے امارنتھ ریسٹورنٹ میں آجائیں۔ میں انتظار کروں گی۔ ہرچند کہ میں نے انہیں کہا کہ میرا آفس ہوگا، مگر انہوں نے اپنی بات دہرائی۔ میں نے کہا اچھا میں آ جاؤں گا۔

اگلے دن میں ٹرین میں نیویارک جا رہا تھا۔ جب میں ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ داخلی دروازے کے ساتھ ہی زرداری بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ان سے ملا اور پوچھا کہ بی بی کہاں ہیں۔ انہوں نے ریسٹورنٹ کے عقبی حصے کی جانب اشارہ کیا: وہ آئسکریم کھاتے ہوئے کسی سے بات کر رہی تھیں۔ جو لوگ انہیں جانتے ہیں، انہیں معلوم ہوگا کہ وہ میٹھے کی شوقین تھیں۔

تھوڑی ہی دیر میں بلاول، بختاور، اور آصفہ بھی شاپنگ بیگز اٹھائے ہوئے وہاں آ پہنچے۔ وہ دن تھا جب انہوں نے مجھے 18 اکتوبر کو پاکستان واپسی کے اپنے منصوبے کے بارے میں بتایا۔

"میں واپس جا رہی ہوں۔ آصف امی، بچوں اور اپنے کاروبار کا دھیان رکھیں گے اور دبئی میں ہی رکیں گے۔ مجھے بتائیں کہ آپ میرے ساتھ چلنا چاہتے ہیں یا نہیں، میں ایف بی (فرحت اللہ بابر) سے کہوں گی کہ وہ جہاز میں آپ کی بھی سیٹ بک کروا دیں۔ میری پارٹی کو الیکشنز کے لیے میری ضرورت ہے۔ ہم جیتیں گے۔ میں وزیرِ اعظم بنوں گی۔ آپ کو چلنا چاہیے اور ہماری مدد کرنی چاہیے۔"

زرداری نے مجھ سے کہا کہ میں ان پر واپس نہ جانے کے لیے زور ڈالوں کیوں کہ ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق تھے۔ میں نے کہا کہ میں خطرات کی موجودگی سے اتفاق کرتا ہوں، مگر خلا اتنا بڑا ہے کہ بینظیر کے علاوہ اسے کوئی اور پُر نہیں کر سکتا۔

اس وقت بی بی نے مداخلت کی اور کہا کہ مرتضیٰ ٹھیک کہہ رہے ہیں، اور زرداری سے کہا کہ: "آپ بھی تو شاندار انداز میں لاہور گئے تھے۔ پھر کیا ہوا تھا؟"

زرداری اس کے بعد خاموش ہوگئے۔ انہوں نے اپنی کتاب دخترِ مشرق کے دوسرے ایڈیشن کی ایک کاپی سائن کی اور بس، ملاقات ختم۔

میری ان سے آخری ملاقات ان کے قتل سے ٹھیک تین ماہ قبل ہوئی۔ 27 ستمبر 2007 کو انہوں نے مجھ سے دوپہر دو بجے رٹز کارلٹن ہوٹل میں ملنے کے لیے کہا۔ جب میں وہاں پہنچا تو سینیٹر اکبر خواجہ، شجاع نواز، زرداری اور چند دیگر افراد موجود تھے، اور ان کی واپسی کی تفصیلات پر بات کر رہے تھے۔ مشرف کی جانب سے بین الاقوامی سیکیورٹی فراہم کرنے سے انکار اور کونڈولیزا رائس سے گفتگو بھی بات چیت کا حصہ رہی۔

انہوں نے مشرف، اور ان کی واپسی کے مخالف چند دیگر افراد کی جانب سے اٹکائے جانے والے روڑوں کے بارے میں بات کی۔ اس سب کے باوجود بی بی پرعزم تھیں۔ انہوں نے زور دیا کہ "ہر چیز کا اعلان کر دیا گیا ہے، اب میں اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی، میری پارٹی کے لیے میری وہاں موجودگی نہایت ضروری ہے۔" ماحول میں تناؤ صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔

مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کی مشرف سے فون پر سخت بات چیت ہوئی ہے۔ یہ تمام تفصیلات مجھے ان کے قتل کے بعد معلوم ہوئیں۔

گفتگو کے دوران انہوں نے مجھ سے ایک سوال پوچھا۔ جب میں جواب دینے لگا تو زرداری کا موٹورولا فلپ فون بج اٹھا۔ زرداری نے فون اٹھایا اور بات کرنی شروع کر دی۔ میں نے بی بی کو اس قدر غصے میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انہیں "پنکی" کہا جاتا تھا مگر اس وقت تو وہ غصے میں لال ہوگئی تھیں۔

"آپ نے دیکھا کہ میں نے مرتضیٰ سے ایک سوال پوچھا ہے؟ میرے لیے ان کا جواب سننا اہم ہے۔ اگر ذاتی معاملات اتنے اہم ہیں تو آپ باہر جائیں، بات ختم کریں، اور پھر واپس آئیں،" بینظیر بھٹو کے کہنے پر زرداری اٹھ کر باہر نکل گئے اور بعد میں واپس آئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے رشتے میں کس کی زیادہ چلتی تھی۔

وہ اپنی زندگی کے آخری ہفتوں تک مجھ سے فون اور ای میل کے ذریعے رابطے میں رہیں۔ ایک دن ہمارے مشترکہ دوست اور ماہرِ افغان امور احمد راشد نے بتایا کہ بینظیر کئی لوگوں بشمول احمد راشد سے بات کرنے میں مصروف تھیں جب میں نے انہیں کال کی، اور انہوں نے اٹھائی۔ راشد نے بعد میں انہیں مذاقاً کہا کہ شاید یہ واشنگٹن سے کوئی سندھی کنکشن تھا۔ وہ ہمیشہ بہت نرم مزاجی سے پیش آتی تھیں۔

ایک دن وہ شہر میں تھیں مگر مجھ سے ملاقات نہیں ہوئی، لہٰذا میں نے انہیں اس بارے میں ای میل کر دی۔ ان کے معتمد سینیٹر اکبر خواجہ نے مجھے فون کیا اور صبح ساڑھے چھے بجے ناشتے پر مدعو کیا۔ مجھے دھچکا لگا، مگر ان کا معمول یہی تھا، اور وہ آئیں اور مجھے سے ناشتہ بھی کیا اور معذرت بھی کرتی رہیں۔

بینظیر بھٹو 1986 میں وطن واپسی پر لاہور میں اپنے کارکنوں کو ہاتھ ہلا رہی ہیں۔ — فوٹو ڈان ڈاٹ کام۔

27 دسمبر 2007 کی سرد صبح کا آغاز کچھ برا نہیں تھا۔ میں اپنے اپارٹمنٹ میں اپنے صبح کے معمولات نمٹا رہا تھا۔ پاکستانی نیوز ویب سائٹس دیکھنا، ای میل چیک کرنا، ناشتہ کرنا، کپڑے تبدیل کرنا، اور کافی کا بڑا تھرماس بھرنا، اور پھر گھر سے نکل جانا۔

میرا لائیو شو پاکستانی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے، یعنی واشنگٹن میں صبح دس بجے ہوا کرتا تھا، جس کے لیے مجھے پیر سے لے کر جمعے تک صبح پانچ بجے آفس پہنچنا ہوتا تھا تاکہ شو کی تیاری کی جا سکے۔

ہماری ٹیم صرف دو ارکان پر مشتمل تھی۔ میری پروڈیوسر شہناز نفیس ایک نوجوان پختون خاتون تھیں جنہیں اردو سروس کے زیادہ تر اسٹاف ممبران ان کے اردو لہجے کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔ وہ آٹھ بجے تک آتیں اور چند کاموں میں میری مدد کرتیں۔

اس دن میرے آفس جانے والی سڑک آئی 395 پر بہت تھوڑی ٹریفک تھی اور میں 20 منٹ میں دفتر پہنچ گیا تھا۔

سرخ آنکھوں والے سیکیورٹی گارڈز سے گزر کر میں سیدھا اسٹوڈیو پہنچا۔ اسٹوڈیو میں چھوٹے ٹی وی مانیٹرز موجود تھے جن کی آواز بند رہتی تھی۔ ایک مانیٹر پر جیو نیوز چل رہا ہوتا تھا تاکہ اس ملک سے باخبر رہا جائے جہاں ہماری براڈکاسٹ بھی جا رہی ہوتی تھی۔

سیاسی گرما گرمی عروج پر تھیں کیوں کہ دونوں سابق وزرائے اعظم بینظر بھٹو اور نواز شریف واپس آ چکے تھے۔ دونوں کو اس دن راولپنڈی میں جلسے کرنے تھے۔ نواز شریف شیخ رشید کے مقابلے میں کھڑے اپنے پارٹی امیدواروں جاوید ہاشمی اور حنیف عباسی کی حمایت کے لیے جی ٹی روڈ کے ذریعے راولپنڈی پہنچ رہے تھے۔

میں نے مختلف سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کو فون کر کے مختصر انٹرویو ریکارڈ کرنے شروع کیے تاکہ بعد میں انہیں شو میں استعمال کر سکوں۔ پھر میں نے بی بی کے لندن میں معتمد ساتھی واجد شمس الحسن کو فون کیا اور انہیں ریکارڈ کرنے لگا۔ اس دوران میں نے ٹی وی پر بھی نظر رکھی ہوئی تھی۔

انٹرویو کے دوران ہی میں نے جیو نیوز پر ٹکر دیکھا کہ لیاقت باغ میں جلسے کے بعد دھماکہ ہوا ہے مگر بینظیر محفوظ ہیں۔ تھوڑی دیر بعد میں نے ان کے سیکیورٹی چیف رحمان ملک کا بیان ٹکر پر دیکھا کہ وہ محفوظ ہیں۔ واجد بھائی، جیسا کہ ہم انہیں کہتے تھے، سے بات کرتے ہوئے میں نے سیل فون پر دیکھا کہ مسڈ کال لگی ہوئی ہے۔ یہ عرب امارات سے زرداری کا فون تھا۔

میں نے واجد شمس الحسن سے معذرت کی اور انہیں بتایا کہ میں نے آصف زرداری کی کال مس کر دی ہے، میں ان سے بات کر کے دوبارہ کال کرتا ہوں۔

فون پر زرداری نے بتایا کہ "بینظیر زخمی ہیں، ان کی زندگی کے لیے دعا کریں۔" میں نے کہا کہ رحمان ملک اور میڈیا تو کہہ رہے ہیں کہ انہیں کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے نازیبا الفاظ کے ساتھ مجھے سندھی میں کہا کہ ٹی وی پر یقین کرو گے یا مجھ پر؟ میں خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں خبر ہر جگہ پھیل چکی تھی۔

بینظیر اب ہمارے درمیان نہیں رہی تھیں۔

مجھے یاد ہے کہ اس دن معروف کالم نگار ایاز امیر نے میرے آفس کے فون پر ایک وائس میسج چھوڑا کہ "میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ مجھے کال کریں اور آن لائن لیں۔"

ہم کئی دن تک روئے۔ واشنگٹن میں لوگ رکتے اور ہم سے پوچھتے کہ کیا ہم پاکستانی ہیں، اور پھر ہم سے اظہارِ افسوس کرتے۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ پاکستان، خطے اور دنیا کو لاحق خطرات سے بینظیر بھٹو کس طرح نمٹتیں۔ میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ دوسروں سے کہیں زیادہ بہتر متبادل حل پیش کرتیں، اور ان میں ان کی اپنی جماعت کی حکومت بھی شامل ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

مرتضیٰ سولنگی

مرتضیٰ سولنگی پاکستانی صحافی ہیں۔ وہ وائس آف امریکا کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں اور 2008 سے 2013 تک قومی نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان کی سربراہی کر چکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔