پہلے خط سے آخری ملاقات تک بے نظیر

اگر ان کی جدوجہد سے بھرپور روشن زندگی کا اس طرح خاتمہ نہ کر دیا جاتا تو آج وہ 63 سال کی ہوتیں۔ ہم نے انہیں 9 سال قبل کھو دیا تھا۔
اب جبکہ ہمارا ملک تاریخ کے اکھاڑے میں کسی کپتان کے بغیر جہاز کی طرح ڈول رہا ہے، تو میں سوچتا ہوں کہ بینظیر نے بطور رہنما — سیاستدان، ماں، بیوی، بہن اور ایک انسان — کے ہماری رہنمائی کس طرح کی ہوتی۔
میری ان سے پہلے ملاقات 1991 میں کراچی میں ایک سفارتی تقریب میں ہوئی جب میں ایک نوجوان سفارتی رپورٹر تھا۔ وہ میڈیا کی آنکھوں کا تارا تھیں۔ جب بھی وہ کسی تقریب میں جاتیں، تو تمام آنکھیں اور کان بس ان کی ہی جانب لگے ہوتے۔
1992 میں ایک دن جب میں دی نیوز انٹرنیشنل کے رپورٹرز روم میں داخل ہوا تو ان کی جانب سے ایک خط میرا منتظر تھا۔ یہ نجمہ صدیقی کی ادارت میں نکلنے والے دی نیوز کے میگزین کی کَور اسٹوری کے بارے میں تھا، جو سندھ میں خودکشیوں کی لہر کے بارے میں تھی۔
اسٹوری کے مطابق سندھ میں قریب ایک درجن تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بیروزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کر لی تھی۔ بی بی نے قومی اسمبلی کے فلور پر میگزین لہراتے ہوئے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ مسئلے پر غور کرے۔ خط میں اس مسئلے کو سامنے لانے کے لیے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے بینظیر نے کہا تھا کہ نثار کھوڑو مجھ سے اسٹوری کے سلسلے میں رابطے میں رہیں گے۔
یہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف تھا۔
اگلے سال وہ دوبارہ وزیرِ اعظم بن گئیں۔
کئی سال بعد جب پرویز مشرف حکومت میں تھے اور بی بی جلاوطن تھیں، تو واشنگٹن ڈی سی میں ہماری دوبارہ ملاقات ہوئی۔ وہ ہر سال امریکا آتیں، کیپٹل ہل میں لوگوں سے ملتیں، تھنک ٹینکس اور صحافیوں سے ملاقاتیں کرتیں، میڈیا ہاؤسز کے دورے کرتیں اور اپنے پارٹی کارکنان سے ملاقاتیں کرتیں۔ ہماری ملاقات وائس آف امریکا کے دفتر میں ہوئی جہاں میں کام کرتا تھا۔
11 ستمبر کے بعد امریکا بھر میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔ ایک دن جب میں کوہن بلڈنگ، جہاں وائس آف امریکا کا دفتر ہے، میں داخل ہو رہا تھا تو میں نے انہیں گیٹ پر سیکیورٹی چیکنگ سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ انہیں اپنی تمام چیزیں بشمول ہینڈ بیگ کو ٹرے میں رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔ پھر انہیں جوتے اتار کر ٹرے میں رکھنے کے لیے کہا گیا۔
وہ گیٹ سے ننگے پیر گزریں۔ اس منظر کو دیکھتے ہوئے میں متضاد جذبات کے طوفان میں گھر گیا۔ آج تک مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس دن مجھے کیا ہوا تھا۔ مگر میں نے وائس آف امریکا کے حکام سے یہ ضرور کہا کہ ان سے مستقبل میں یہ سلوک نہ کیا جائے۔
وہ مجھے اپنے اہم حالات سے باخبر رکھتیں کیوں کہ میں جدہ میں رہنے والے نواز شریف کی طرح ان کے بھی زیادہ سے زیادہ انٹرویو کرنے لگا تھا۔ انہوں نے جنوری 2006 کے اوائل میں مجھے بتایا کہ وہ مہینے کے آخر تک واشنگٹن میں ہوں گی۔
میں نے اور فرح اصفہانی، جو وائس آف امریکا اردو ٹی وی کی سربراہ تھیں، نے مشورہ دیا کہ انہیں وائس آف امریکا میں ایک پریس کانفرنس کرنی چاہیے اور امریکی و بین الاقوامی میڈیا کو اس کی کوریج کے لیے مدعو کرنا چاہیے۔
تاریخ فکس کر دی گئی۔ جمعرات 26 جنوری 2006۔ اس وقت کے وائس آف امریکا کے سربراہ ڈیوڈ جیکسن منصوبے سے باخبر تھے اور ہر کوئی اس کے لیے پرجوش تھے۔
پھر اچانک وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے 24 جنوری کو امریکا کا دورہ کیا اور صدر بش سے ملاقات کی۔ بس پھر کیا تھا، ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ (امریکی محکمہءِ داخلہ) نے وائس آف امریکا پر پروگرام منسوخ کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا۔ منطق یہ پیش کی گئی کہ پاکستانی وزیرِ اعظم کے دورہءِ امریکا کے صرف دو دن بعد وائس آف امریکا بینظیر بھٹو کو ایک سے زائد مسائل، بشمول دہشتگردی کی معاونت کرنے اور اس کے لیے امریکا سے امداد حاصل کرنے پر پاکستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہوگا، جس سے نہایت منفی اور متضاد تاثر جائے گا۔
اس دن میرے آفس جانے والی سڑک آئی 395 پر بہت تھوڑی ٹریفک تھی اور میں 20 منٹ میں دفتر پہنچ گیا تھا۔
مرتضیٰ سولنگی پاکستانی صحافی ہیں۔ وہ وائس آف امریکا کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں اور 2008 سے 2013 تک قومی نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان کی سربراہی کر چکے ہیں۔