پاکستان

راحیل شریف سے کبھی مدد کی درخواست نہیں کی،مشرف

بیرون ملک جانے کے حوالے سے میری بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف

چند روز قبل اپنے ایک انٹرویو کے ذریعے خبروں کی شہہ سرخریوں کا حصہ بننے والے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیرون ملک جانے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے کبھی مدد کی درخواست نہیں کی۔

انہوں نے یہ بات ’چینل 92‘ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ ’بیرون ملک جانے کے لیے کسی نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے کسی سے رابطہ کیا، راحیل شریف نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی میں نے ان سے کوئی درخواست کی، جبکہ دنیا نیوز سے ان کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔‘

سیاست میں فوجی اثر و رسوخ

مقامی سیاست میں فوجی اثر و رسوخ کے حوالے سے سابق صدر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں تمام ادارے مل کر کام کرتے ہیں۔‘

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے بیان کا حوالے دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی واپسی کے حوالے سے ابھی کوئی وقت نہیں دے سکتے اور نہ ہی عدالتی حکم میں ان کی وطن واپسی سے متعلق کوئی حکم موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جنرل راحیل نے بیرون ملک جانے میں مدد کی، مشرف

تیزی سے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے

پرویز مشرف نے کہا کہ 2008 میں جس وقت انہوں نے صدارت کا عہدہ چھوڑا اس وقت بیرونی قرضوں کا حجم 36 ارب ڈالر تھا، جو اب بڑھ کر 75 اڑب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم گزشتہ آٹھ سال سے سالانہ 5 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں، لیکن یہ رقم جاتی کہاں ہے؟ یہ رقم حکمرانوں کی جیبوں میں جاتی ہے۔

’پاکستان میں کسی کو سزا نہیں ملتی‘

سابق صدر نے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ پلی بارگین کا آغاز میرے ہی دوڑ میں ہوا کیونکہ اس وقت قومی خزانے میں 50 کروڑ ڈالر بھی نہیں تھے، لیکن پلی بارگین کا استعمال عقل کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں کسی کو سزا نہیں ملتی، لیکن پلی بارگین سے کم از کم قومی خزانے میں کچھ رقم آجاتی ہے۔‘

نیب کا نیا چیئرمین کسے ہونا چاہیے؟

قومی احتساب بیورو (نیب) کے نئے چیئرمین کے حوالے سے سابق صدر کا کہنا تھا کہ ’نیب کے نئے چیئرمین کو نہ ہی حکومت اور نہ ہی اپوزیشن سے ہونا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ملک کے سب سے زیادہ دیانتدار اور محترم شخص کو نیب کا چیئرمین ہونا چاہیے اور پاکستان ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ُ

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نجی چینل ’دنیا نیوز‘ کے پروگرام ’ٹونائٹ وِد کامران شاہد‘ میں گفتگو کرتے ہوئے پرویز مشرف کا کہنا تھا سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ان کی ’مدد‘ کی اور عدالتوں پر موجود دباؤ ختم کرنے کے لیے حکومت سے معاہدہ کیا، جس کے بعد انہیں بیرون ملک جانے دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں ان کا باس رہا ہوں اور میں آرمی چیف بھی رہا ہوں، تو انھوں نے میری مدد کی۔‘

پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف (حکومت کی جانب سے) سیاسی کیسز بنائے گئے تھے، جس کے بعد ان کا نام ایگزٹ کنٹرل لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا گیا۔

مزید پڑھیں: راحیل شریف سے متعلق بیان: ’پرویز مشرف نے تمام حدیں پار کردی‘

یاد رہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف رواں برس 18 مارچ کو ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے بعد بیرون ملک روانہ ہوگئے تھے، ان کا نام 5 اپریل 2013 کو وزارت داخلہ نے ای سی ایل میں ڈالا تھا۔

جنرل مشرف نے بیرون ملک روانگی کے وقت ڈان نیوز سے گفتگو میں کہا تھا کہ 'میں ایک کمانڈو ہوں اور مجھے اپنے وطن سے پیار ہے، میں کچھ ہفتوں یا مہینوں میں واپس آ جاؤں گا۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ واپس پاکستان آ کر تمام مقدمات کا سامنا کرنے کے علاوہ سیاست میں متحرک کردار بھی ادا کریں گے۔