نقطہ نظر

شہباز تاثیر کی کہانی: طالبان کی قید میں میرا پہلا دن

کتنا حیران کن ہے نا کہ انسان کیسے وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بدترین حالات اور غیر معمولی صورتحال میں ڈھال سکتا ہے۔

شہباز تاثیر کی کہانی: طالبان کی قید میں میرا پہلا دن

سنڈے امیجز

شہباز تاثیر اغوا کیے جانے سے پہلے

اگست 2011 میں مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے کو لاہور سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ تین دن بعد انہیں قبائلی ایجنسی شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی منتقل کر دیا گیا۔

وہ اگلے ساڑھے چار سال تک مغوی رہے۔

ڈان کے لیے خصوصی تحریر میں شہباز تاثیر قید میں گزارے اپنے پہلے دن کی روداد سناتے ہیں۔


میر علی میں یہ میرا پہلا دن ہے۔

یہ کتنا حیران کن ہے ناکہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کس طرح بدترین حالات اور غیر معمولی صورتحال میں خود کو ڈھال سکتا ہے۔

آج ان حالات میں خود کو ڈھالنے کی میری اسی جدوجہد کا آغاز ہے۔

ایک جہدوجہد جس میں مجھے بھوک، درد، خوف اور ذہنی و زبانی تشدد کا عادی بننا تھا۔ آگے آنے والے دنوں میں مجھے صرف یہی سب سہنا تھا۔

اگر مجھے اغواکاروں کے ہاتھوں زندہ رہنا ہے، تو مجھے ہر اس چیز کو بھلا دینا ہوگا جو نارمل تصور کی جاتی ہے۔

اغوا کار مجھ پر مسلسل ہدایات اور گالیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔ ان کی ناراضگی کی اصل وجہ میری اس زبان کو سمجھنے میں ناکامی ہے جسے میں زندگی میں پہلی بار سن رہا ہوں۔

میں ایک اندھیرے کمرے میں محصور ہوں اور روشنی کمرے کی چھت میں موجود ایک چھوٹے سے سوراخ سے ہی اندر آ پاتی ہے۔ یہ سوراخ سردیوں میں ہیٹر کا پائپ گزارنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

میرے حواس پر سب سے پہلا حملہ ناگوار بو کرتی ہے۔

عید عنقریب ہے اور میں ایک ایسے کمرے میں مقید ہوں جو پہلے بھیڑوں کو باندھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

گندگی سے اٹے ہوئے فرش اور گندے کمرے کی ناگوار بو سے میرا ناک جل رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ میں نے خود میں لاہور کی نڈھال کر دینے والی گرمیوں میں گھنٹوں فٹ بال کھیلنے کے بعد بھی کبھی اس قدر شدید ناگوار بو محسوس کی ہوگی۔

میں ایک کیچڑ زدہ فرش پر بیٹھا ہوں۔

میں اپنے گھر کے آرام دہ بستر کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔

میں اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے لا کر کلائیوں میں بندھی زنگ آلود زنجیریں دیکھتا ہوں۔ یہ انتہائی خوبصورتی اور نفاست سے بنے ہوئے میرے پسندیدہ رولیکس کے بریسلیٹ سے کتنی الگ ہیں۔

میں اپنے پیٹ میں بھوک سے ہونے والی تکلیف کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

میں صرف درد اور خوف سے ہی آشنا ہوں۔

کیا میں آج زندہ رہوں گا؟ کیا میں ہفتے کے آخر تک زندہ رہ سکوں گا؟

میں اپنے اغواکاروں کے چہروں کے بارے میں سوچتا ہوں، وہ لوگ جو پیسوں کی خاطر اگلے ساڑھے چار سال تک مجھے اس امید کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنائیں گے کہ ان کے برادارن رہائی پا لیں۔

شہباز تاثیر رہائی کے بعد — فوٹو بشکریہ لکھاری۔

میں اپنے آرام کے عادی جسم پر نظر دوڑا رہا ہوں اور ہاتھوں پیروں میں ہمت کے آثار تلاش کر رہا ہوں۔

اس حال میں میں اپنی شناخت کے بارے میں سوچتا ہوں۔ شہباز کی شناخت یہاں ختم ہوچکی ہے۔ میں اب کسی کا بیٹا، بھائی، شوہر یا دوست نہیں رہا۔

یہاں میں صرف ایک قیدی ہوں۔

مجھے اس سوچ سے ہی ٹھیس پہنچتی ہے، مگر مجھے ابھی یہ معلوم نہیں کہ آنے والے برسوں میں یہی وہ الفاظ ہوں گے جو مجھے مخاطب کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

وہ جو چاہیں مجھے پکار سکتے ہیں، مگر میں آزاد ہوں۔

آج اپنی ذات کے تمام بکھرے اور ٹوٹے ہوئے حصوں کو سمیٹنے کی جنگ کی ابتدا ہے۔

میں خود کو اکٹھا کروں گا، اور کسی نہ کسی طرح ہمت اور صبر تلاش کر لوں گا۔

زندہ رہنے کے لیے انسانی جسم اور دماغ کس قدر تکالیف سہہ سکتا ہے، یہ حیران کن ہے۔

نشہ دیے جانے کی وجہ سے میں مدہوشی کا شکار ہوں اور میرے جسم کی ہر ہڈی، ہر حصہ درد سے چلا رہا ہے۔ میری پسلیوں، ٹانگوں، ہاتھوں اور چہرے پر بیک وقت ناقابل فراموش درد محسوس ہو رہا ہے۔

میری آنکھ کے نیچے ایک کٹ لگا ہے جہاں سے اب بھی خون رواں ہے۔ بیڑیاں جل رہی ہیں اور میری کلائیوں اور پیروں کو کاٹ رہی ہیں۔

یہاں اتنی شدید گرمی ہے جو میں نے اس سے پہلے کبھی بھی محسوس نہیں کی۔

ذہن میں آہستہ آہستہ یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ چاہے کوئی بھی موسم ہو، آرام اب کبھی میرے پاس سے بھی ہو کر نہیں گزرے گا۔

اس چھوٹے سے کمرے میں ایک سرخ رنگ کی بالٹی ہے اور شاید یہی میرا ٹوائلیٹ ہے۔

مجھے پیاس بجھانے، وضو کرنے اور ٹوائلیٹ میں استعمال کرنے کے لیے ایک پانی سے بھرا ہوا لوٹا بھی دیا گیا ہے۔

مجھے ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ اس ایک لوٹے سے مجھے ایک پورا دن گزارنا ہے، اس لیے میں لوٹا اپنے منہ پر رکھتا ہوں اور خشک ہوچکے حلق کو تر کرنے کے لیے غٹاغٹ پی جاتا ہوں۔

میں صرف سخت حالات میں گزارا کرنا سیکھوں گا اور جلد ہی مجھے پانی کو بچت کے ساتھ استعمال کرنا آجائے گا۔

پیاس سے میرا دھیان صرف مچھر ہی بٹاتے ہیں جو میرے جسم کو نوچ رہے ہیں۔

مچھروں اور جہازوں کی آوازیں مجھے ہمیشہ خوف مبتلا کرتی رہیں گی۔

ناشتے کے لیے مجھے شکر اور دودھ سے عاری سیاہ چائے دی جاتی ہے اور ساتھ میں ڈبل روٹی کا ایک پھپھوندی لگا ٹکڑا، جو کہ اس شدید بھوک کے باوجود میں نہیں کھا پاتا۔

اگلے چند دنوں میں، میں چائے کو ٹھنڈا کر کے پانی کے طور پر استعمال کرنا سیکھ جاؤں گا۔

دن میں ایک وقت کا کھانا نوڈلز پر مشتمل ہے، جسے میں دو حصوں میں بانٹ دیتا ہوں: ایک دوپہر کے کھانے کے لیے اور باقی ٹھنڈا، ربر جیسا حصہ رات کے کھانے کے لیے رکھتا ہوں۔

میری سب سے بڑی غلطی اغواکاروں کو یہ بتانا ہے کہ میں روزانہ یہ نوڈلز نہیں کھا سکتا۔

میری درخواست مانتے ہوئے میرا کھانے کا معمول تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب مجھے روز جانور کی چربی کا ایک ٹکڑا دیا جائے گا جو میں تقریباً اگلے پورے سال تک حلق سے اتارنا سیکھ جاؤں گا۔

خوف کو بیان کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح بڑی مشکل کے ساتھ درد بھی قابلِ بیان بن جاتا ہے۔

مگر تنہائی ایک ایسی چیز ہے جو کبھی بیان نہیں کی جاسکتی۔

میں خوش نصیب ہوں کہ میرے پاس باتیں اور مذاق کرنے کے لیے اپنی ذات تو ہے، یا کم از کم میرا خیال تو یہی ہے۔

ان حالات کے باوجود میں مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔

ڈیڑھ سال بعد میں ایک ڈرون حملے میں شدید زخمی ہو جاؤں گا اور مجھے پھر میرے اغواکار کے گھر منتقل کیا جائے گا، جہاں اس کا 2 سالہ ازبک بیٹا میری طرف لڑکھڑاتا آئے گا اور اس کے شش و پنج میں پڑے چہرے کو دیکھ کر میری ہنسی چھوٹ جائے گی۔

کئی سال میں یہ پہلی بار ہوگا جب میں ہنسوں گا۔

مگر میرا ہنسنا کسی مذاقیہ صورتحال یا ماضی کی کسی یاد کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان تاریک دنوں میں حقیقی انسان کی وجہ سے ہوگا۔

مسکراہٹ اور ہنسی اور کئی دیگر جذبات اب میری ذات کا حصہ بن جائیں گے، جن کی قدر مجھے پہلے کبھی نہیں تھی۔

پہلے دن میرے قید خانے کا گارڈ سچ مچ کافی نفیس اور دوستانہ نظر آتا ہے۔

مجھے جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ جہاں طالبان کا قہر ختم ہوتا ہے وہاں سے ازبکوں کا رحم شروع ہوتا ہے۔

اس قید خانے میں پہلے دن کے بعد سب کچھ بدل جائے گا۔

میں ایک بالکل ہی مختلف شخص بن جاؤں گا۔

خود کو زندہ رکھنے کی ہمت پیدا کرنے کے لیے میں اپنے تمام جذبات اور آسائشوں، جنہیں میں اپنا حق سمجھتا تھا، کے بغیر رہنا سیکھ جاؤں گا۔

میں اپنے ایمان کے اندر سکون اور زبردست طاقت تلاش کر لوں گا۔

سکون اور امید کا سب سے قیمتی تحفہ؛ اپنے ان محبوب چہروں اور جگہیں دیکھنے کی امید جو اب دھندلے ہوتے جاتے رہے ہیں۔

میں اپنے والد کے بارے میں سوچتا ہوں اور اس چیز کے بارے میں جو میں نے برسوں تک ان سے سیکھی تھی۔

ثابت قدمی۔

میں خود کو بتاتا ہوں کہ ایک دن میں ماضی کو یاد کرنے بیٹھوں گا اور اس دن کو یاد کر کے مسکرا دوں گا۔

یہی سوچ مجھے تھوڑی طاقت بخشتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 25 دسمبر 2016 کو شائع ہوا۔

سنڈے امیجز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔