پنجاب میں پی پی پی ووٹوں پر بھٹو کی پالیسیوں کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ جنرل ضیاء کے بعد پہلے تین انتخابات میں پارٹی تقریبآ 50 لاکھ ووٹ حاصل کرتی رہی، جو کہ بالکل 1970 کی کارکردگی کے مساوی ہے۔
ان تمام انتخابات کے دوران ہر 10 پنجابی ووٹرز میں سے چار پی پی پی سے وفادار رہے۔ بھٹو کی نیشنلائزیشن، دیگر پالیسیوں، اور جنرل ضیاء کی ایک دہائی پر محیط ناگوار حکومت کے باوجود پنجاب نے پی پی پی سے اپنی امیدیں اور خواہشات وابستہ کیے رکھیں۔
تبدیلی کافی آگے چل کر 1997 میں آئی۔ پنجاب میں ہر دوسرے پی پی پی ووٹر نے انتخابی مرحلے میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور وہ پھر کبھی بھی اس جوش و جذبے کے ساتھ واپس نہیں لوٹے. 2013 تک ہر 10 پنجابی ووٹرز میں سے صرف ایک پی پی پی کا حامی تھا۔
چوتھا مفروضہ: سب زرداری نے کیا!
پی پی پی 1997 میں اپنے نصف ووٹرز کھو بیٹھی۔ 207 ممبران پر مشتمل قومی اسمبلی میں پی پی پی کے پاس صرف 18 نشستیں تھیں اور پنجاب میں ایک بھی نشست نہیں تھی، جبکہ 248 نشستوں والی پنجاب اسمبلی میں پی پی پی کے پاس شرمناک حد تک کم، یعنی صرف تین نشستیں تھیں۔
پی پی پی کے کٹر جیالے اس ہولناک موڑ کا پورا الزام آصف علی زرداری پرڈالتے ہیں، جو بھٹو کے گھر میں ایک انجان شخص تھا۔ انہیں محترمہ کی حکومت کو کمزور کرنے والے کرپشن اسکینڈلز کا مرکزی کردار بھی گردانا جاتا ہے.
زرداری پر بینظیر حکومت کے اپنی ہی پارٹی کے صدر فاروق لغاری سے تعلقات خراب کرنے کا بھی الزام لگایا گیا۔ سب سے آخر میں مگر سب سے ضروری، مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں زرداری کے ملوث ہونے کے بارے میں سازشی نظریات آخری کیل ثابت ہوئے تھے۔
جیالوں کو بینظیر کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ایک بلی کے بکرے کی تلاش تھی کیوں کہ انہوں نے اپنے سیاسی نظریات محترمہ سے وابستہ کر رکھے تھے اور انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے.
مگر یہ کینہ صرف ایک یا دو لوگوں، یا پھر ایک کرپٹ یا کرپشن کے ٹولے تک ہی محدود نہیں رہا۔ جیالوں کو نہ صرف ان کے سربراہان نے مایوس کیا بلکہ وقت نے بھی کیا، اور ان میں سے کئی لوگ اس بات کو تسلیم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
وہ لوگ یہ دیکھنے میں ناکام یا انکاری رہتے ہیں کہ اس وقت کون سی چیز دنیا کو پوری طرح سے بدل رہی تھی۔ پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھا اور اور جس کسی نے بھی حکومت کی سربراہی کی، اس نے بھی وہی پالیسی اختیار کی۔
یہ وہ عرصہ تھا جب سرد جنگ اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی اور گلوبلائزیشن کا دور دورہ تھا۔ جدید لبرل پالیسیاں اب ایک عام سے بات بن چکی تھیں۔ مالی پالیسیوں کا تعین عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کر رہے تھے اور سرکاری شعبہ تیز رفتاری کے ساتھ سکڑتا جا رہا تھا۔
اداروں کو قوم پرست جذبات کے تحت تحفظ دینا ایک پرخطر سودا تھا اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنا ایک نیا فائدہ مند سودا۔ مزدور یونینز کو خطرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور نیشنلائزیشن یو ٹرن لے کر پرائیویٹائزیشن یعنی نجکاری میں بدل چکی تھی.
ان طاقتور عالمی لہروں میں پی پی پی کا 'روٹی کپڑا اور مکان' کہیں کھو سا گیا۔
حتیٰ کہ اگر یہ جماعت اب بھی ماضی کا قصہ نہیں بنی تھی، مگر تب بھی پرانے نعرے نئے دور کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ دھوکہ جیالوں کا مقدر بن چکا تھا.
1993 سے 1997 کے درمیان پی پی پی کا دور حکومت صرف اس کی حکومت کی ناکامی نہیں تھی بلکہ اس دوران پرانی سوشلسٹ طرز کی سیاست بھی اختتام پذیر ہوئی، اور پارٹی اسی طرزِ حکومت کے لیے جانی جاتی تھی.
یہ پارٹی کے لیے خسارے کا دور تھا۔ اس دوران اسے نہ صرف 1997 کے انتخابات میں شکست ہوئی بلکہ اس نے اپنی ایجاد کردہ سیاست کو بھی کھو دیا تھا۔
پانچواں مفروضہ: 2018 میں پی پی پی دوبارہ جیتے گی
یہ مفروضہ زیر تشکیل ہے اور اس مفروضے کو مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی ناکامیوں سے تقویت مل رہی ہے۔
2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی پی پی پی کے حصے کے ووٹ لینے میں کامیاب رہی، مگر کیا عمران خان کی ناکامی کے بعد کیا بلاول ایک بار پھر ہارا ہوا میدان جیت سکتے ہیں؟
1997 میں شکست کے بعد پی پی پی نے سرپرستانہ سیاست کا آغاز کر دیا۔ جہاں 'روٹی کپڑا اور مکان' ایک سیاسی نعرے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، وہاں پارٹی امیدواروں نے اپنے حریفوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو اپنے حامیوں اور ووٹروں کی تھانہ کچہری میں معاونت کے کاموں میں وقف کر دیا، اور ان کے لیے ایسی دیگر ’خدمات‘ میں مصروف ہو گئے جو اس طرح کی سیاست کی ایک خاص پہچان ہیں۔
پی پی پی نے 2002 اور 2008 میں کامیابی حاصل کی مگر ان دونوں انتخابات کے دوران پنجاب میں سرپرستانہ سیاست کے اصل کھلاڑی میدان میں تھے ہی نہیں۔ 2002 میں شریف برادران جلاوطن تھے اور ان کے مقامی رہنما فوجی حکومت کی زد میں تھے۔ 2008 میں مسلم لیگ ن نے کچھ ہی عرصہ قبل اپنی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع تو کیا، مگر یہ جماعت منتشر تھی کیوں کہ پارٹی ممبران اس کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا شکار تھے.
پی پی پی نے 2008 میں ان کمزوریوں کو اپنے حریف کے خلاف استعمال کیا اور اسلام آباد تک اپنی راہ ہموار کر لی، مگر وہ مسلم لیگ ن کو اس کے ہوم گراؤنڈ پنجاب میں شکست نہیں دے پائی۔
2013 تک مسلم لیگ ن اپنی حالت کافی بہتر کر چکی تھی اور کوئی دوسری جماعت اس کا مقابلہ کرنے کی حالت میں نہیں تھی۔ پنجاب میں دوسرے نمبر پر آنے کے لیے بھی پی پی پی کے پاس پی ٹی آئی کی صورت میں ایک مقابل میدان میں تھا جس نے پی پی پی کو بری طرح سے شکست سے دوچار کیا۔
پی پی پی 1997 کے بعد اپنی 'روٹی، کپڑا اور مکان' والی سیاست کو دوبارہ تخلیق نہ کر سکی، اور نہ ہی پنجاب میں سرپرستانہ سیاست میں مہارت حاصل کر سکی۔ اس نے صرف اپنے قائدین کی "عام لوگوں کے لیے دی ہوئی عظیم قربانیوں" کا نام استعمال کر کے لوگوں کے جذبات جگانے کی کوشش کی، مگر یہ طریقہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔
پارٹی کو یا تو اپنی سیاست کو دوبارہ تخلیق کرنا ہوگا، یا پھر تھانہ کچہری کی سیاست کے چیمپیئن کو اس کے ہی کھیل میں ہرانا ہوگا.
دونوں چیلینجز انتہائی کٹھن ہیں. کیا پی پی پی ان کو حاصل کر سکتی ہے؟
اس مضمون میں دیے گئے تمام اعداد و شمار قومی اسمبلی کے انتخابات کے ہیں۔
آپ نے 2013 میں جس سیاسی جماعت کو ووٹ دیا تھا کیا وہ آپ کی توقعات پر پوری اتری؟ نیچے کمنٹس میں یا blog@dawn.com پر اپنی رائے سے آگاہ کیجیے۔