'بھئی یہ غزل تو ہم نے نور جہاں کو دے دی ہے'
8 ستمبر 1965 کو جب پاک و ہند جنگ شروع ہوئے دو دن ہو چکے تھے، تو ریڈیو پاکستان لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ کو ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔
لائن پر دوسری جانب ایک خاتون نے انہیں کہا کہ وہ نور جہاں بول رہی ہیں اور جنگِ ستمبر کے حوالے سے ملی نغمے ریکارڈ کروانا چاہتی ہیں۔
پہلے پہل تو شمس الدین صاحب نے اسے ایک مذاق سمجھا کہ شاید کوئی انہیں بے وقوف بنا رہا ہے، لیکن تھوڑی دیر بعد ملکہءِ ترنم نور جہاں کی رہائش گاہ پر موجود مشہور موسیقار حسن لطیف نے ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر کو کال کر کے اصل صورتحال سجمھائی کہ میڈم نورجہاں اپنی افواج کا مورال اپنی موسیقی کے ذریعے بلند کرنا چاہتی ہیں۔ یوں میڈم نے 1965 کے معرکے کے دوران تقریبا گیارہ نئے گانے ریکارڈ کروائے۔
جنگِ سمتبر کے دوران مختلف شعراء فی البدیہہ کلام اسی دن کہتے جس کی دھن تریتب دیے جانے کے بعد ملکہ ترنم نور جہاں اپنی آواز کے سحر سے موسیقی کو ایک نئی زبان اور روح عطا کر دیتیں۔
اسی دوران ایسا بھی ہوا کہ ایک دن گانے کے لیے کوئی شاعری موجود نہیں تھی تو میڈم نے یہ تجویز پیش کی کہ علامہ اقبال کے کلام 'ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان' کو ہی گا لیا جائے. تاہم اس میں جدت پیدا کرنے کے لیے پشتو زبان کے مشہور شاعر سمندر خان سمندر نے اس نظم کا پشتو زبان میں ترجمہ کیا، اور میڈم نے یہ کلام پشتو زبان میں گایا۔
ملکہ ترنم نور جہاں، جنہوں نے بطور بے بی نور جہاں اپنے فنی سفر کا آغاز کیا، نے اپنے فلمی کریئر میں تقریباً دس ہزار کے قریب گانے ریکارڈ کروائے جن میں پنجابی، پشتو، اردو-ہندی، اور سندھی زبان کے گانے شامل تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان گانوں میں سے تین ہزار کے قریب گانے مشہور موسیقار وجاہت عطرے نے ریکارڈ کیے۔
مدد علی اور فتح بی بی کی یہ بچی بہت کم سنی سے ہی فن کی دنیا میں آگئی تھی، نور جہاں کے والدین بھی موسیقار تھے، تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے بارہ بچوں میں سے نور جہاں سب سے منفرد تھیں۔
23 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہونے والی اللہ رکھی وسائی پانچ سال کی عمر میں ہی اسٹیج پر گیت گا کر سب کی توجہ کا مرکز بن گئی تھیں۔ موسیقی کی ابتدائی تعلیم انہوں نے اس دور کی مشہور گلوکارہ کجن بیگم سے حاصل کی۔ اس وقت وہ تقریباً بارہ گھنٹے کا ریاض کرتی تھیں۔ بعد ازاں وہ استاد بڑے غلام علی خان سے بھی باقاعدگی سے گانا گانا سیکھتی رہیں۔
نورجہاں ایک ایسی ورسٹائل اداکارہ اور گلوکارہ تھیں جو اپنے احساسات اور انداز سے، اور جس دلجمعی سے وہ گاتی تھیں، سامعین کے دلوں میں گھر کر لیتی تھیں۔
اگر میں یہ کہوں کہ برِ صغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ان جیسی گلوکارہ پیدا نہیں ہوئی تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ خوب صورت آواز کے سحر سے کبھی کوئی آزاد نہیں ہو سکتا، اور میڈم نور جہاں کی طلسماتی شخصیت نے اپنے انتقال کے بعد بھی پوری دنیا کو اب تک اپنے طلسم میں جکڑ رکھا ہے۔
انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سے مخلص رفیق کار میسر آئے جنہوں نے اس ہیرے کی تراش خراش میں اپنا کردار ادا کیا۔ وہ نو سال کی تھیں تو اس وقت کے مقبول میوزک ڈائریکٹر جی اے چشتی نے انہیں اسٹیج پر گوایا۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے لیے کئی غزلیں، گیت اور نعیتں کمپوز کیں۔ اس دور میں بے بی نورجہاں کو ایک گانے کا معاوضہ ساڑھے سات آنے ملا کرتا تھا۔
بے بی نور جہاں نے بہت کم سنی میں ہی اپنے خاندان کا معاشی بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا تھا۔ ہندوستانی موسیقی سے انہیں خاص دلچسپی رہی اور کم سنی میں ہی انہوں نے ٹھمری، دادرا اور خیال جیسی اصناف موسیقی پر دسترس حاصل کر لی تھی۔
اپنے کریئر کی شروعات میں نور جہاں آغا حشر کاشمیری کی بیگم گلوکارہ مختار بیگم سے بہت متاثر تھیں۔ نور جہاں میں موجود ہنر کو دیکھتے ہوئے مختار بیگم نے انہیں اور ان کی بہنوں کو اپنے ڈرامہ نگار شوہر آغا حشر کاشمیری کے تھیٹر میں بھی کام دلوایا۔
اس قریبی تعلق نے نور جہاں کے فن کو بھی نکھارا اور ان کی شخصیت کو بھی۔ چنانچہ ابتدائی سالوں میں نور جہاں نے ساڑھی باندھنے اور گانے کا اسٹائل بھی انہی سے مماثل رکھا، لیکن بعد ازاں انہوں نے ایک ایسا منفرد اسٹائل اپنایا کہ پاکستان تو کیا پوری دنیا میں ان کا انداز اپنایا جانے لگا، خواہ وہ پیروڈی کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔
اتنی بڑی گلوکارہ ہونے کے باوجود ان کی انکساری کا یہ عالم تھا کہ ہر ٹیکنیشن، ہر ہیپلر کے حال سے واقف رہتی تھیں اور کبھی غرور و تکبر نے ان کے ذہن و دل میں بسیرا نہیں کیا تھا۔
نور جہاں بیک وقت گلوکارہ بھی تھیں اور صفِ اول کی اداکارہ بھی۔ ان کی تمام پنجابی فلمیں کلکتہ میں تیار کی گئی تھیں جبکہ 1938 میں وہ لاہور منتقل ہو گئیں۔ 1931 میں انہوں نے 11 خاموش فلموں میں بھی کام کیا۔
میڈم نے بطور چائلڈ سٹار جن فلموں میں کام کیا ان میں ’ہیر سیال‘، ’گل بکائولی‘ اور ’سسی پنوں‘ شامل ہیں جبکہ بطور ہیروئن انہوں نے بہت سی فلموں میں اپنے فن کا جادو بکھیرا جن میں نوکر (1943)، نادان (1943)، دوست (1944)، لال حویلی (1944)، مرزا غالب (1961)، نوراں (1957)، کوئل (1959)، پردیسن (1959)، نیند (1959)، انارکلی (1958) یملا جٹ (1940)، چوہدری (1941) وغیرہ سمیت کئی اور فلمیں بھی شامل ہیں۔
ان کے مشہور گانوں کی بات کریں تو موسیقی کے لیے ان کی خدمات کا احاطہ میرے لیے ناقابل بیان ہوگا۔ ان کی تعریف کے لیے فیض احمد فیض کے تاریخی الفاظ ہی کافی ہیں۔
جب نور جہاں نے فیض صاحب کی مشہور غزل 'مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ' گائی تو ہر طرف بس اس غزل کے چرچے ہونے لگے۔ بے انتہا تاثیر رکھنے والے الفاظ اور نور جہاں کے ترنم نے مل کر لوگوں کے دلوں کو چھو لیا۔
یہاں تک کہ جب کسی تقریب میں فیض صاحب سے ایک شخص نے کہا کہ آپ کی غزل کو نور جہاں نے خوب برتا ہے، تو فیض صاحب نے اپنے روایتی انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ بھئی وہ غزل تو ہم نے نور جہاں کو دے دی ہے، وہ اب ہماری نہیں ہے۔
اسی طرح سے ان کی گائیکی کا ہی کمال ہے کہ 'سانوں نہر والے پل تے بلا کے'، 'آواز دے کہاں ہے'، 'چاندنی راتیں'، اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے'، اور 'اے وطن کے سجیلے جوانو!' گائے جانے کے دہائیوں بعد بھی اگر سنے جائیں تو اتنے ہی تازہ اور موجودہ دور سے ہم آہنگ محسوس ہوتے ہیں جتنے کہ نور جہاں کے اپنے دور میں تھے۔
میڈم کی گائیکی کے حوالے سے یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ پلے بیک سنگر کے طور پر فلم میں کام کرنے والی اداکارہ کو بھی مدنظر رکھتی تھیں۔ خواہ وہ صبیحہ خانم ہوں، زیبا بیگم، بہار بیگم، یا کوئی اور، ان کی آواز سب پر ہی فٹ بیٹھ جاتی تھی۔
مگر دنیا بھر سے پذیرائی اور مقبولیت سمیٹنے والی نور جہاں کے نصیب میں ازدواجی زندگی کا سکھ نہیں تھا۔ ان کی پہلی شادی 1942 میں فلم ساز شوکت حسین رضوی سے ہوئی جن سے ان کے تین بچے ہوئے لیکن یہ شادی 1953 میں طلاق پر ختم ہوئی۔ اسی طرح وہ دوسری مرتبہ اعجاز درانی سے 1959 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، جن سے بھی ان کی تین اولادیں ہوئیں تاہم اس رشتے کا اختتام بھی طلاق پر ہی ہوا۔
ملکہ ترنم نور جہاں کو 1965 میں تمغہءِ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا اور کئی دیگر اعزازات بھی ان کے حصے میں آئے۔
سریلی آواز اور خداداد صلاحیتوں کی مالک 'ملکہءِ ترنم دل کے عارضے میں مبتلا ہو کر 23 دسمبر 2000 کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔
گو کہ ان کے انتقال کو 16 سال بیت چکے ہیں، لیکن ابھی بھی کہیں ذہن کے پردوں پر یہ آواز گونجتی ہے، 'گائے گی دنیا گیت میرے، سریلے رنگ میرے، نرالے رنگ میرے۔'
راضیہ سید دس سال سے شعبہء صحافت سے بطور رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں، اور پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز ڈگری رکھتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔