یمن:بحری جہاز پر حملہ کے بعد پاکستانی عملہ لاپتہ
اسلام آباد: یمن کے ساحل پر مرچنٹ بحری جہاز پر ہونے والے میزائل حملے کے بعد اس میں سوار پاکستانی عملے سے متعلق واضح معلومات سامنے نہ آسکیں۔
عرب بحری سروس کے افسر اور ایرانی جہاز ایم وی جوئیا 8 کے نمائندے سید محمد احمد کا دعویٰ ہے کہ جہاز کو 4 روز قبل نشانہ بنایا گیا جبکہ اس میں 8 پاکستانی موجود تھے۔
سید محمد احمد نے مزید کہا کہ 7 افراد ان کی کمپنی کی جانب سے ہی جہاز کو فراہم کیے گئے تھے۔
بحری جہاز مصر میں کارگو پہنچانے کے بعد دبئی جا رہا تھا جب یمن کے سال پر یہ واقعہ پیش آیا۔
ڈان سے فون پر بات کرتے ہوئے سید محمد احمد کا بتانا تھا کہ یہ معلومات انہیں جہاز کے چیف افسر کبیر نے یمن سے فون پر فراہم کیں، جو جہاز سے کود کر ساحل پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کے مطابق جہاز پر موجود باقی 7 پاکستانیوں کے متعلق تاحال کچھ پتہ نہیں چل سکا جبکہ ممکن ہے کہ حملے کے بعد جہاز ڈوب گیا ہو۔
واضح رہے کہ جہاز پر حملہ یمن کی حدیدہ بندرگاہ کے قریب ہوا، حدیدہ کی بندرگاہ پر حوثی باغیوں کا قبضہ ہے۔
سید محمد احمد کے مطابق فون پر بات کا دورانیہ صرف ڈیڑھ منٹ پر محیط تھا جبکہ آواز کی کوالٹی اتنی خراب تھی کہ وہ مزید تفصیل حاصل نہ کرسکے، تاہم جتنی بھی معلومات انہیں حاصل ہوئی وہ اسے پاک بحریہ کو بتاچکے ہیں۔
حملے کی ذمہ داری اب تک کسی کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں بھی یمن کے صوبے طائز میں موکھا ساحل کے سعودی جیٹس کی بمباری کی وجہ سے بحری جہاز پر موجود 6 پاکستانی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ بدقسمت جہاز کے عملے میں شامل 6 دیگر افراد سے متعلق کچھ پتہ نہیں چل سکا تھا۔
تاہم پاک نیوی کے افسر کے بیان میں اس دعوے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ حاصل ہونے والی معلومات کی تصدیق نہیں کی جاسکی جبکہ حملے کے مقام اور تاریخ پر جہاز کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہوئی۔
سماجی کارکن انصار برنی کے مطابق انہوں نے سعودی عرب، ترکی، روس اور ایران سے جہاز کی تلاش اور گمشدہ عملے کو ڈھونڈنے کے لیے مدد طلب کی ہے۔
ان کا بتانا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل محمد ذکاء اللہ کو بھی اس حوالے سے خطوط رسال کیے۔
یہ خبر 23 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی