ڈھولکی اور سیلفیوں کے درمیان ہم حیرت کا شکار ہوتے رہے کہ آخر اس جوڑے نے اپنی شادی کے ہر پہلو کو عوام کے سامنے لانے کا انتخاب کیوں کیا. کیا انہیں کچھ چیزیں جیسے نکاح اور اظہارِ محبت وغیرہ کو پرائیویٹ رکھنا چاہیے تھا؟
مداحوں کے لیے یا تو چند ایک تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دی جاتیں، یا پھر کسی ایک تقریب کو تمام تر تفصیلات کے ساتھ کور کرنا بھی کافی ہوتا۔ کس چیز نے انہیں اسنیپ چیٹ اور انسٹاگرام کو اس طرح استعمال کرنے، مثلاً قوالی سے ڈھولکی اور پھر مساجد تک جانے کی کوریج کے لیے اکسایا؟
یہ 'ٹرینڈنگ' شادی کنزیومرازم کو فروغ دینے کاباعث؟
کسی بھی نوجوان کی خواہش ہوسکتی ہے کہ اس کی شادی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ ہو۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اس طرح کی ٹرینڈنگ شادیاں ہمارے معاشرے کے بڑے حصے میں فروغ پاتا ناقابلِ فہم تصور ہے، جس کا کریڈٹ AnushMunib# کی شادی کو دیا جاسکتا ہے جو رواں سال کے شروع میں ہوئی اور اس کا تصور اب مقبولیت پارہا ہے اور ہمارے اندر ڈھولکی ویڈیوز انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے کا رجحان فروغ پارہا ہے۔
ایک طرف کچھ افراد عروہ اور فرحان کی شادی کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں تو دوسری جانب دیگر افراد کو لگتا ہے کہ ہمیں جیو اور جینے دو کی سوچ اپنانی چاہئے اور جوڑے کے ذاتی امور پر فیصلے نہیں سنانے چاہئیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ کسی کی ذات پر حملے کرنا کسی صورت ٹھیک نہیں تاہم یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے جب میڈیا کو خاص طور پر شادی میں مدعو کیا گیا، جب فیشن ڈیزائنرز کو 'اسپانسرز' کی طرح شادی کے دعوت نامے میں شامل کیا، جب ایک 'ریڈ کارپٹ' شادی کے لیے لگایا گیا، تو کیا واقعی ایک نجی ایونٓٹ تھا؟ اس کا جواب بلاشبہ 'نہیں' ہوگا۔
چونکہ عروہ اور فرحان کی شادی ایک عوامی تقریب تھی اور کسی حد تک عوامی دلچسپی کا معامل تھا، تو اس پر اپنی رائے دی جاسکتی ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس معاملے کے چند پہلو مسائل کا شکار ہیں۔
انسٹاگرام اور ویڈنگ ہیش ٹیگ کی ایجاد سے قبل شادیاں ایک ذاتی معاملہ ہوتا تھا جس میں رشتے دار اور دوست شریک ہوتے، رقص سے لطف اندوز ہوتے۔ اب اسے مکمل طور پر سطحی پروڈکشنز سے بدل دیا گیا ہے جہاں سب کچھ سجایا جاتا ہے، یعنی شادی کے ڈیزائنر ملبوسات سے لے کر پیشہ ورانہ کوریو گرافر ڈانس سب کو دیکھنے کے لیے عام کیا جاتا ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں معاشی تضادات بڑھ رہے ہیں، وہاں اس طرح کا رجحان بے حسی تصور کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی ایک قابل تشویش امر ہے کہ عام نوجوانوں کو اس سے متاثر ہونے سے روکنا ناممکن ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ عروہ اور فرحان کی شادی بہت زیادہ کوریوگراف تھی اور اس جوڑے کے ملبوسات کا بل محدود تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے متعدد ملبوسات ادھار پر لیے گئے تھے۔
ان کی شادی کے دعوت نامے پر واضح طور پرایچ ایس وائی، ایلان، فراز منان، میوس، منیب نواز، کیو وائی ٹی، شیریں رحمان، فضاءگیلانی، شہرزاد رحیمتولہ اور عرفان احسن کو 'Hugs' پیش کیے گئے تھے، یعنی واضح طور پر ان افراد نے شادی، زیورات اور سجاوٹ کے انتظامات کو اسپانسر کیا۔
ان میں سے کئی نے اپنے ملبوسات انہیں ادھار دیے تھے، اگرچہ جوڑے نے چند کو خریدا بھی، مثال کے طور پر شادی کی مرکزی تقریب میں جہاں جوڑے نے ایچ ایس وائی کے ملبوسات کو پہنا/ یہ واضح تھا کہ بہترین فٹنگ والے ڈیزائنز کو پہلے سے تیار کروایا گیا تھا۔
مگر دیگر مثالوں میں ناقص فٹنگ سے عندیہ ملتا تھا کہ یہ ملبوسات اس دن کے لیے ادھار لیے گئے ہیں۔
مگر کیا دیگر دلہنوں کو اس کا علم ہے؟ انہیں تو یہ عیاشی حاصل نہیں ہوگی کہ کسی ڈیزائنر لباس کو مفت استعمال کرسکے۔
یقیناً اسے تو کوئی لباس خریدنا پڑے گا اور کیا یہ واقعی منصفانہ ہے کہ نوجوان دلہنوں کے اندر ایسے عروسی ملبوسات کی خریداری کی حوصلہ افزائی کی جائے جن کی قیمت دس لاکھ یا اس سے زیادہ ہے؟
سب کچھ بکتا ہے
عروہ اور فرحان کو ملبوسات ادھار دینے کے بدلے ان اسپانسرز کو سوشل میڈیا پر مارکیٹنگ کے لیے بڑا موقع ملا۔ درحقیقت آپ یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ درجنوں انٹرنیٹ استعمال کرنے کی شوقین اور جلد شادی کی منتظر لڑکیاں عروہ یا ماورا کی انسٹاگرام تصاویر اپنے درزی کو دے کر ان ڈیزائنز کی نقل تیار کرنے کا کہیں گی۔
بلاگرز اور انسٹاگرامرز تاحال بڑی تعداد میں فالورز کو urwafarhan# کے ہیش ٹیگ کے ذریعے متوجہ کررہے ہیں۔
یہ چیز ہمیں اس ایونٹ کے ایک اور مسئلے کے شکار پہلو کی جانب لے جاتی ہے، یعنی کچھ ایسے افراد کی منافقت جنہوں نے اس معاملے کو سب کے سامنے لانے میں تعاون کیا۔
فیس بک کے پرائیویٹ اکاﺅنٹس اور اپنے ڈرائنگ رومز میں شہر کا اونچا طبقہ اس شادی پر ناک چڑھا کر اسے بے ضابطہ قرار دیتا ہے مگر کوئی بھی عوامی فورم پر ایسا کہنے کے لیے تیار نہیں۔ کسی نے بھی اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ ایک اسپانسر شادی کا تصور کتنا برا ہے۔
وہ ڈیزائنر جو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کوریج سے 'بچتے' ہیں، اس بات پر خوش ہیں کہ شادی کی تصاویر کیسے نئے کلائنٹس کو ان کی جانب متوجہ کررہی ہیں۔
یہ سب دولت اور مارکیٹنگ کا کمال ہے مگر جب شادی ایک پروڈکشن بن جائے اور ہر ایک کی جانب سے سراہی جائے تو یہ پریشان کن مثال بن جاتی ہے۔
نوجوان جوڑے اس طرح کی تقاریب کے خواہشمند ہوسکتے ہیں، 'شو آف ' کی جانب جھکاﺅ بڑھ سکتا ہے اور کسی سیلیبرٹی کے عروسی ملبوسات کا گلیمر عوامی سطح پر جگہ بنا سکتا ہے۔
عروہ اور فرحان کے لیے مزید کیا؟
مفت کی اشیاءسے قطع نظر اس شادی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ عروہ، ماورا اور فرحان کی انٹرنیٹ فالوونگ میں اضافہ ہو اور وہ افراد جو ان کے بارے میں پہلے کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے، اب انہیں پہچاننے لگے ہیں۔
انہوں نے اپنے سلیبرٹی اسٹیٹس کو بڑھا لیا ہے اور اس بات کی پروا نہیں کہ آئیکونز کے بجائے عامیانہ اسٹارز زیادہ سمجھے جانے لگے ہیں۔ انسٹاگرام پر سب کچھ بکتا ہے اور تمام پبلسٹی اچھی پبلسٹی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے عہد کا مطلب معیار کے مقابلے میں مقدار ہے اور یہاں کنزیومرازم سب پر بھاری ہے۔
یہ نہایت افسوسناک ہے۔
انگلش میں پڑھیں