اس کے بعد ہما نے ارسلان کے لیے ایسی تصاویر کھیچنا شروع کردی جسے دیکھ کر انہیں اندازہ ہو کہ ہما ارسلان کو بے حد یاد کررہی ہیں۔
ہما کی یہ مضحکہ خیز تصاویر پوری دنیا کی بڑی ویب سائٹس کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی، بعد ازاں ہما اور ارسلام کو انٹرکانٹی نینٹل ہوٹلز کی جانب سے ان کی شادی کی سالگرہ اور نئے سال کے لیے یورپ جانے کے لیے اسپانسر شپ بھی دی گئی۔
زاہد احمد کا معذوری سے عروج تک سفر زاہد احمد اس وقت پاکستانی ڈراموں کے مقبول ترین اداکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 'محرم' سے کیا جبکہ شہرت الوداع میں منفی کردار سے ملی۔مگر ان کو یہ عروج ان کو آسانی سے نہیں ملا بلکہ چند سال پہلے جسمانی طور پر چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں رہے تھے جبکہ بالوں سے بھی محروم ہوگئے تھے۔
زاہد احمد نے یہ بات خود چند ماپ پہلے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں بتائی اور ان کی زندگی کا سفر کسی ڈرامے کی طرح ڈرامائی ہی ہے۔
زاہد احمد نے اپنی پوسٹ پر لکھا " جو تصویر متعدد ویب سائٹس پر گھوم رہی ہے اور لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ حقیقی ہے یا نہیں، تو اس کا جواب ہے، ہاں وہ حقیقی تصویر ہے۔ بائیں جانب بھی میں ہی ہوں، مگر ہر تصویر کی طرح آپ پوری کہانی سے واقف نہیں، اپنے بالوں سے محروم سر کے حل سے لے کر زیادہ جسمانی وزن تک میں نے بہت کچھ کیا، میری کہانی یہ ہے"۔
اپنی پوسٹ میں انہوں نے بتایا کہ وہ 2011 میں ایک آئی ٹی کمپنی میں چیف آپریٹنگ آفیسر تھے، اسی سال شادی ہوئی اور وہ ملائیشیاءہنی مون پر گئے، جہاں آخری روز معلوم ہوا کہ کمپنی ہی ختم ہوگئی (وہ فراڈ کمپنی تھی)۔
اس کے بعد وہ نئی نویلی بیوی کے ساتھ پاکستان اس حال میں آئے کہ ملازمت سے محروم تھے جبکہ کریڈٹ کارڈ پر بہت بھاری قرضہ لے چکے تھے، جس کے بعد ملازمت کی تلاش شروع ہوئی جبکہ ازدواجی زندگی بھی خطرے میں پڑگئی۔
2012 میں ان کا ایک حادثہ ہوا جس سے ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی، چار ماہ تک وہ ہلنے کے قابل بھی نہیں تھے اور لگ رہا تھا کہ شادی ٹوٹ جائے گی، تاہم اسی دوران انہیں اچھی آواز پر ایک ریڈیو شو ملا۔
مگر ریڈیو کے لیے کام کرنے کی کوشش میں ریڑھ کی ہڈی کو مزید نقصان پہنچا اور چلنے پھرنے سے قاصر ہونے پر ریڈیو کی ملازمت بھی ختم ہوگئی مگر خوداعتمادی باقی تھی۔
سب سے پہلے انہوں نے اسلام آباد میں جاکر پمز میں ریڑھ کی ہڈی کی سرجری کا مشورہ کیا اور آپریشن کے بعد چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے، جس کے بع انہیں دس گنا کم معاوضے پر ملازمت ملی، جہاں کام سخت تھا، اسی دورانیے میں انہیں پی ٹی وی ہوم پر انگلش فلموں پر بات کرنے کا شو ملا، جس سے کچھ وقار بحال ہوا۔
2013 میں پی ٹی وی ورلڈ کے لانچ کرنے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی گئیں مگر پی پی پی حکومت ختم ہونے کے بعد پی ٹی وی کے سربراہ فارغ ہوگئے، جس کے بعد انور مقصود کے ساتھ کرنے والی ٹیم نے ان سے ایک تھیٹر ڈرامے کے لیے رابطہ کیا۔
ایک سال تک اس ڈرامے میں کام کیا، جس دوران اڑ جانے والے بالوں کا مسئلہ حل کیا جبکہ 22 کلو وزن بھی کم کیا۔
2014 میں مگر تھیٹر پلے کے پروڈیوسر کی جان سے ہر ایک کے پیسے دبانے پر اسے چھوڑ دیا، جس کے بعد نہ گھر تھا نہ پیسے، اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر تھے۔
اسی سال ہم ٹی وی سے انہیں آڈیشن کے لیے کال آئی اور وہ 'محرم' کے لیے منتخب ہوگئے۔
زاہد احمد نے اپنی پوسٹ کا اختتام ان الفاظ پر کیا " اگر یہ کہانی آپ کے اندر عزم نہیں جگاتی، تو مجھے نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہوگا، میں زاہد احمد ہوں، میرے اندر جذبہ ہے اور میں مستقبل ہوں"۔
مزید کے لیے کلک کریں جب مومنہ مستحسن کو 'ملازمہ' جیسی کہا گیا گلوکارہ مومنہ مستحسن کے دلکش انداز کے سوشل میڈیا پر خوب چرچے ہیں تاہم بہت سے ایسے بھی لوگ ہیں جنھیں ان کی شخصیت کچھ خاص پسند نہیں آئیں۔
چند ماہ پہلے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک صارف نے مومنہ کو اپنے گھر کی ’نوکرانی‘ سے تشبیہ دی۔
ہشام بیگ نامی مذکورہ صارف نے اپنے ایک کمنٹ میں کہا تھا کہ ’مومنہ خوبصورتی کے بالکل بھی قریب نہیں، وہ ایک عام سی شکل و صورت کی حامل لڑکی ہیں، ب ±را مت مانیے گا لیکن وہ میرے گھر میں کام کرنے والی نوکرانی سے ملتی ہیں‘۔
اس کمنٹ کے جواب میں مومنہ نے RespectAll (سب کی عزت کریں) کے ہیش ٹیگ کا سہارا لیتے ہوئے کہا، ’میں نے تو کبھی بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ میں خوبصورت ہوں، آپ کی نوکرانی سے مشابہت رکھنے میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں ہے، میں خوش ہوں کہ میں ایسے محنتی لوگوں سے ملتی ہوں جو کسی کے گھر کا کام کرتے ہیں‘۔