'آصف زرداری 23 دسمبر کو پاکستان واپس آئیں گے'
کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی وطن واپسی کے لیے 23 دسمبر کی تاریخ کا اعلان کردیا۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز نے صدر زرداری کو سفر کی اجازت دے دی ہے اور وہ 23 دسمبر کو کراچی ایئرپورٹ پر پہنچیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے استقبال کے لیے صرف 3 دن کا وقت ملا ہے لیکن اس مختصر وقت میں بھی زبردست استقبال کریں گے۔
پاناما لیکس کے حوالے سے بلاول نے کہا کہ پاناما اسکینڈل کا شفاف احتساب چاہتے ہیں۔
بلاول نے کہا کہ آصف زرداری ساتھ ہوں گے تو ہمارے چار مطالبات جلد منظور ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری نے 'جلد وطن واپسی' کا عندیہ دیدیا
انہوں نے کہا کہ 'پاناما اسکینڈل میں اگر میرا نام بھی آیا ہے تو مجھ سے بھی تحقیقات کریں لیکن بات یہ ہے کہ میں وزیراعظم نہیں ہوں ملک کا'۔
بلاول نے کہا کہ 'دنیا کے سب سے بڑے کرپشن اسکینڈل میں وزیراعظم پاکستان ایکسپوز ہوگئے ہیں، یہ کوئی مذاق نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'میرا اور میرے خاندان کا نام پاناما پیپرز میں نہیں آیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ادارے قانون کی پاسداری کریں اور غیر جانبدارنہ طریقے سے کام کریں۔
بلاول نے کہا کہ پیپلز پارٹی کراچی کے صدر ڈاکٹر عاصم چوہدری نثار اور وزیراعظم کے سیاسی قیدی ہیں اور وہ ہمیں اس لیے نشانہ بنارہے ہیں تاکہ ہم اپوزیشن کا کردار ٹھیک طریقے سے ادا نہ کرسکیں۔
بلاول نے کہا کہ آصف زرداری کو ڈاکٹرز نے اجازت دی ہے، ان کی صحت ہم سب کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم 'شہزادے کے ڈرامے میں نہیں پڑتے ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، آصف زرداری صحت بہتر ہونے پر واپس آرہے ہیں، اس کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں تھا'۔
واضح رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے 17 جون 2015 کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک تقریر کے دوران بظاہر اسٹیبلشمنٹ کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہمیں پریشان نہ کیا جائے، ورنہ اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی'۔
اس بیان کے ایک ہفتے کے اندر ہی نامعلوم وجوہات کی بنا پر سابق صدر ملک چھوڑ گئے تھے، وہ 25 جون سے دبئی میں مقیم ہیں۔
مزید پڑھیں: زرداری جنرل راحیل کے ریٹائرمنٹ اعلان سے مایوس
فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری کا مزید کہنا تھا کہ فوج کے جنرل ہر تین سال میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں البتہ سیاستدان ملک میں ہمیشہ رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہتر جانتے ہیں کہ ملک کے معاملات کو کیسے چلانا ہے۔
ان کا کہنا تھا وہ ملک کے اداروں کو کمزور نہیں کرنا چاہتے مگر آرمی کو بھی سیاستدانوں کے لیے رکاوٹیں پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کو ملک کی سیاست سے الگ رہنا چاہیےاور مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ ان کے مذکورہ بیان کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور پی پی میں تعلقات کشیدہ ہونے کے حوالے سے افواہیں گردش کرنے لگی تھیں اور آصف علی زرداری کے دبئی منتقل ہونے کے بعد کراچی میں جاری آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے متعدد وزراء اور دیگر رہنماوں کو گرفتار بھی کیا تھا جن میں ڈاکٹر عاصم بھی شامل تھے۔
بعد ازاں 12 مارچ 2016 کو ڈان نیوز کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ان کے بیانات کو ہمیشہ غلط رنگ دیا جاتا ہے اور یہ کہ وہ کسی سے تصادم نہیں چاہتے اور سسٹم کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'اینٹ سے اینٹ بجانے' والی بات کا اشارہ دراصل فوج کی جانب نہیں تھا بلکہ مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب تھا، کسی اور کی 'اینٹ سے اینٹ' نہیں بج سکتی۔
سابق صدرکا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے 'دونوں بیانات' کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔