’سانحہ کوئٹہ رپورٹ کے بعد وزیراعظم کو استعفے کی پیشکش کی‘
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سانحہ کوئٹہ کی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ اخبارات کے ذریعے پڑھی جس میں مرچ مصالحہ بھی موجود تھا۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف سنے بغیر یکطرفہ رپورٹ کس طرح سامنے آگئی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ’رپورٹ دیکھنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے پاس گیا اور کہا کہ اگر میرے بات کرنے سے حکومت کو مشکلات پیش آتی ہیں تو میں استعفیٰ دے دیتا ہوں تاکہ ریکارڈ کو درست کرسکوں‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعظم نے کہا کہ یہ تو میرے لیے قابل قبول نہیں لہٰذا آج میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں تاکہ آپ کو کہانی کا دوسرا رخ بتاسکوں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’رپورٹ میں صرف آفیشل نہیں بلکہ ذاتی الزامات بھی لگائے گئے، مثال کے طور مجھے اس بات سے بہت زیادہ رنج ہوا جب میں نے اخبارات میں پڑھا کہ وزیر داخلہ نے غلط بیانی کی‘۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ کوئٹہ: 'وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی'
انہوں نے کہا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قسم کی چیز سپریم کورٹ بلواسطہ طور پر سامنے لائے گی، سپریم کورٹ تو مقام سکون ہے، مقام سایہ ہے مقام انصاف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں تو ملزم کو بھی مکمل موقع دیا جاتا ہے اپنی صفائی کا لیکن ایسا کیسا ہوا کہ مجھ پر الزامات لگ گئے اور میرا موقف بھی نہیں لیا گیا۔
وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کے آغاز میں کہا کہ وہ آج انتہائی جارجانہ موڈ میں آئے ہیں اور کہا کہ صرف ایک ہی موضوع پر بات ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ’کچھ لوگ اس رپورٹ کے حوالے سے میرے بات کرنے کے خلاف تھے لیکن میں یہ معاملہ واضح کرنے اور تصویر کا دوسرا رخ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ مجھے سیاست میں 35 سال ہوگئے، کوئی ذاتی مقدمہ تو نہیں بنا تاہم سیاسی طور پر یا حکومت کے خلاف جو بھی فیصلے آئے انہیں ہمیشہ خندہ پیشانی سے قبول کیا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ میں فوری طور پر اس کا جواب دینا چاہتا تھا لیکن دو وجوہات کی بناء پر تاخیر ہوگئی۔
مزید پڑھیں: سول ہسپتال واقعہ سیکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے:چیف جسٹس
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’اخبارات میں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا جس میں لکھا تھا کہ میں نے عوام سے جھوٹ بولا‘۔
انہوں نے کہا کہ میں بہت ہی گناہ گار ہوں لیکن جھوٹ نہیں بولتا، رپورٹ میں صرف پیشہ ورانہ نہیں ذاتی الزامات بھی لگائے گئے۔
وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سول و عسکری ربط و تعاون اور سیاسی اتفاق رائے سب سے زیادہ ضروری ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے خود پر اور اپنی وزارت پر لگنے والے الزامات کے جواب نہیں دیے لیکن اب مجھے موقع ملا ہے، اب ہر پلیٹ فارم پر جواب دوں گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’آج نہیں بلکہ آئندہ چند دنوں میں سپریم کورٹ میں بھی اپنا اور وزیر داخلہ کا موقف ایک ایک کرکے پیش کروں گا‘۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ ’پارلیمنٹ میں بھی موقف پیش کروں گا، سنا ہے پارلیمنٹ میں تحریک التواء لائی جارہی ہے، ایک نہیں جتنی مرضی تحریکیں لے آئیں‘۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں نیشنل ایکشن پلان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پانچ مرتبہ پیش کرچکا ہوں اور آپ سب گواہ ہیں کہ پھر اس پر آگے سے کوئی جواب نہیں آیا۔
چوہدری نثار نے نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا) کے حوالے سے کہا کہ ’نیکٹا جب میرے حصے میں آیا تو وہ اسلام آباد میں کرائے کے ایک گھر میں قائم تھا جس کا چھ مہینے کا کرایہ بھی نہیں دیا گیا تھا جو لاکھوں روپے بنتے تھے‘۔
’ادھر جو جوائنٹ سیکریٹری اور ڈپٹی سیکریٹری تھے وہ آپس میں لڑتے تھے، ان کے خلاف پولیس نے مقدمے درج کررکھے تھے‘۔
انہوں نے کہا کہ آج نیکٹا کی پوزیشن سب کے سامنے ہے، کئی خفیہ اطلاعات سیکیورٹی اداروں سے شیئر کی گئیں اور 20 ہزار سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ہوئے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خودکش دھماکا، 70افراد ہلاک
واضح رہے کہ 8 اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خود کش دھماکے میں 70 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے تھے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی تھی۔
بڑی تعداد میں وکلاء بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سول ہسپتال پہنچے تھے کہ اچانک دھماکا ہوگیا۔
اس واقعے پر تشکیل دیے جانے والے جوڈیشل کمیشن نے دو روز قبل اپنی رپورٹ جاری کی تھی جس میں حکومت پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
کوئٹہ کمیشن کے پوچھے گئے 5 سوالات
چوہدری نثار نے کہا کہ ’جنہوں نے نیشنل ایکشن پلان کو پڑھا بھی نہیں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس پر عمل نہیں ہوا‘۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب ہاؤس میں ایک خط بھیجا گیا جس کہا گیا کہ انہیں کوئٹہ کمشین کے حوالے سے پانچ سوالوں کے جواب دینے ہیں۔
چوہدری نثار نے کہا کہ ’پہلے میں سمجھا کہ یہ خط جعلی ہے کیوں کہ میں پنجاب ہاؤس میں نہیں رہتا، تحقیقات پر معلوم ہوا کہ ایک جج کے سیکریٹری نے میرے لیے وہ خط وہاں چھوڑا تھا‘۔
چوہدری نثار نے کہا کہ کمیشن سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے تھا اور پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ’آپ اہل سنت والجماعت کے وفد جس کی سربراہی مولانا لدھیانوی کررہے تھے، کیوں ملے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں ہے میں اہل سنت والجماعت کے وفد سے نہیں ملا‘۔
چوہدری نثار کے مطابق دوسرا سوال یہ تھا کہ ’اسلام آباد میں اہل سنت والجماعت کو جلسے کی اجازت کیوں دی گئی‘؟
’میں نے جواب دیا، اسلام آباد میں جلسوں کی اجازت دینا یا نہ دینا میرے اختیار میں نہیں، یہ ضلعی انتظامیہ کا دائرہ کار ہے اور میرے پوچھنے پر ضلعی انتظامیہ نے بتایا کہ نہ تو اہل سنت والجماعت نے کوئی اجازت مانگی اور نہ ایسی کوئی اجازت دی گئی‘۔
مزید پڑھیں:وزیر داخلہ کی دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات
تیسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ ’بحیثیت وزیر داخلہ آپ نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور یہ ثبوت ملا ہے کہ ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہی کبھی نہیں ہوا، کیوں‘؟
چوہدری نثار نے بتایا کہ ’میں نے اس پر بھی کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے، نیکٹا کی ایگزیکٹو کمیٹی کا آخری اجلاس 31 دسمبر 2014 کو ہوا، بعد ازاں اجلاس کے انعقاد میں تعطل آنے کی وجہ یے ہے کہ نیکٹا ایکٹ قانون کے تحت ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس نیکٹا کے بورڈ آف گورننس کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے یا ان امور کی انجام دہی کے لیے ہوتا ہے جو بورڈ آف گورننس ان کے ذمے کرے‘۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ بورڈ آف گورننس کا اجلاس ہی نہیں ہوا تو ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بھی نہیں بلایا جاسکا۔
چوتھے سوال کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’یہ پوچھا گیا کہ یہ ثابت ہوا کہ بورڈ آف گورننس کا اجلاس کبھی نہیں ہوا، کیوں؟‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ اس سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ ’یہ سوال وزیراعظم آفس سے متعلقہ ہے‘۔
چوہدری نثار کے مطابق پانچویں سوال میں پوچھا گیا کہ ’وزارت داخلہ میں سیکریٹری داخلہ کے علاوہ اسپیشل سیکریٹری بھی ہیں، اسپیشل سیکریٹری کیوں موجود ہیں‘؟
وزیرداخلہ نے کہا کہ ’میں نے جواب دیا کہ اسپیشل سیکریٹری کی تعیناتی قانون کے مطابق ہے، عام طور پر ان وزارتوں میں کی جاتی ہے جہاں کام زیادہ ہو، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل وزارت خارجہ، خزانہ، قانون و انصاف اور دیگر وزارتوں میں بھی اسپیشل سیکریٹری تعینات رہے ہیں اور اس وقت بھی موجود ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات کی، ملاقات میں ون پوائنٹ ایجنڈے شناختی کارڈ پر بات کی۔
چوہدری نثار نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں آنے والے وفد میں مولانا لدھیانوی بھی شامل تھے، وفد فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے شناختی کارڈ سے متعلق بات کے لیے آیا تھا، جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ مولانا لدھیانوی کو ساتھ لے کر کیوں آئے؟
سپریم کورٹ میں جواب پیش کروں گا
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ جب روزانہ 5 سے 6 دھماکے ہوتے تھے اس وقت کسی سے جواب طلبی نہیں ہوئی، میں نے کوئی پٹرول پمپ ، فیکٹری یا آفشور کمپنی نہیں بنائی۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان ہوں یا بچہ پارٹی اس معاملے پر بحث کیلئے تیار ہوں، میرے لیے وزارت نہیں عزت اہم ہے‘۔
چوہدری نثار نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ سے متعلق ایک بھی سوال نہیں کیا گیا، اپنا جواب سپریم کورٹ میں پیش کروں گا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ ’سانحہ کوئٹہ پر مجھ سے کونسا سا سوال کیا گیا جو میں غلط بیانی کی‘؟
یہ بھی پڑھیں: دفعہ 144 کے باوجود ’کالعدم‘ اہل سنت والجماعت کی ریلی
’سپریم کورٹ مقام انصاف ہے، سپریم کورٹ کے سامنے جو پیش ہوتے ہیں، ان کی بھی عزت ہے، میرے لیے وزارت نہیں اپنی عزت اہم ہے، اپنی عزت کا دفاع کروں گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے ملک کے ایک ایک پیسے کا دفاع کیا، اپنی وزارت کو کبھی ذریعہ معاش نہیں بنایا، ڈاکٹر عاصم اور پیپلز پارٹی سے کوئی دشمنی نہیں‘۔
سول ہسپتال دھماکے میں زیادہ تر وکلاء ہلاک ہوئے، جائے وقوع پر موجود صحافی بھی دھماکے کی زد میں آئے اور نجی نیوز چینل آج ٹی وی اور ڈان نیوز کے کیمرہ مین دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کی جانے والی انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں جو اہم سفارشات کی گئیں وہ درج ذیل ہیں:
اہم سفارشات
نیشنل ایکشن پلان(نیپ) کو واضح، مکمل طور پر اور جامع نظام بنانا چاہئیےاور اس کا مسلسل جائزہ لیا جانا چاہئیے۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی(نیکٹا) کو فعال بنایا جائے۔
عوامی مقامات کو نفرت انگیزی، دہشت گردوں اور پروپیگنڈا سے بچانے کے لیےقانونسازی کرنے کی ضرورت ہے۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ کو نافذ کرنے اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کوتاخیر کیے بغیر کالعدم قرار دینے کی ضرورت ہے۔
وفاقی اور بلوچستان حکومت کو ملزمان، مشکوک افراد، مجرموں اور دہشت گردتنظیموں کی معلومات کا تبادلہ کرنا چاہئیے۔
فرانزک لیبارٹریز کو پولیس کے دائرہ اختیار کے بجائے ماہرین کے دائرہاختیار لایا جائے اور ٹیسٹ کے نتائج کو مرکزی ڈیٹا بینک میں رکھا جائےجہاں سے تمام صوبائی حکومتیں نتائج حاصل کر سکیں۔
جائے وقوع کو ماہرانہ بنیادوں پر محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ جتنا جلدیممکن ہوسکے وہاں سے ثبوت حاصل کرکے تصاویر حاصل کی جائیں۔
پروٹوکول یا اسٹینڈرڈ آپریٹنگ کے طریقہ کار کو ماہرین کی مدد سے تیارکیا جائے۔
اسپتال انتظامیہ، بلوچستان حکومت اور پولیس کی کوتاہیوں کو ختم کیاجائے۔
مدارس سمیت تمام تعلیمی اداروں کو رجسٹرڈ کیا جائے۔
پاکستان سے بیرون ملک جانے والے افراد کی مکمل مانیٹرنگ کی جائے۔
کسٹم حکام کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ کوئی بھی غیر ممنوعہ چیزملک کے اندر داخل نہ ہوسکے۔
اگر میڈیا دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے لیے نشریات چلائے تو قانون کےتحت اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو جلد از جلد معاوضے کی رقم اداکی جائے۔