چوہدری نثار اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دیں، شاہ محمود قریشی
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف نے دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کو 2 سال مکمل ہونے پر ڈان نیوز کے پروگرام 'اِن فوکس' میں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے حکومتی کردار پر بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہمیں مزید قانون سازی درکار ہے یا ہمیں آپ کی فلاں مدد چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کی ترجیح صرف یہ ہے کہ پاناما اسکینڈل سے کس طرح بچا جائے۔
شاہ محمود قریشی کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے دوران فاٹا اور خیبرپختونخواہ سمیت ملک کے دیگر حصوں سے دہشت گردوں کی آماجگاہوں کا صفایا کیا گیا اور کراچی کی صورتحال بہتر ہوئی، لیکن بلوچستان کی صورتحال تاحال خراب ہے، وہاں افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے والے بھارتی عناصر کی موجودگی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 'سانحہ اے پی ایس کے بعد 2 بڑے اقدامات اٹھائے گئے تھے، پہلے نیشنل ایکشن پلان پر ایک قومی اتفاق رائے پیدا ہوا، جس پر جسٹس فائز عیسیٰ کی کمیشن رپورٹ کے مطابق عمل نہیں ہوا، اس کے بہت سے جزو ایسے ہیں جن پر ابھی کام کی ابتداء ہی نہیں ہوئی'۔
شاہ محمود نے مزید کہا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں خاص طور پر تحریک انصاف حکومت کی سخت نقاد ہے، نیشنل ایکشن پلان کے معاملے پر ہم نے حکومت کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھایا لیکن حکومت نے پوری قوم کو مایوس کیا ۔
انھوں نے مزید کہا کہ دوسرا بڑا فیصلہ 21 ویں ترمیم کے حوالے سے کیا گیا تھا اور اُس وقت کہا گیا تھا کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے تحت 2 سال کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا جس کے دوران حکومت کو قانونی اصلاحات پر کام کرکے نظام کو فعال اور موثر بنانا تھا۔
مزید پڑھیں:سانحہ کوئٹہ: 'وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی'
شاہ محمود قریشی کے مطابق آئندہ ماہ جنوری میں فوجی عدالتوں کی میعاد ختم ہونے والی ہے اور حکومت اس مخمصے میں ہے کہ فوجی عدالتوں کو توسیع دینی ہے یا نہیں کیوں کہ قانونی اصلاحات کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ان معاملات کو مدنظر رکھ کر اخلاقی بنیادوں پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو استعفیٰ دے دینا چاہیئے کیونکہ سانحہ کوئٹہ کی انکوائری کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ کی سمت درست نہیں، ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کی جانب سے لگائے گئے الزامات غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں برس 8 اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں دہشت گردی کے بڑے واقعے میں 74 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے، جن میں اکثریت وکلاء کی تھی، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی، جس میں یہ واضح کیا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت 2 سال میں کیا ہوا۔
کمیشن کے مطابق حکومت دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سامنے آنے والی انکوائری کمیشن رپورٹ میں وزارت داخلہ کے کردار کے حوالے سے کہا گیا کہ سانحہ کوئٹہ پر وفاقی و صوبائی وزراء نے غلط بیانی کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وزارت داخلہ کو اپنے کردار کا علم ہی نہیں۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی اور ساڑھے تین سال میں ادارے کا صرف ایک اجلاس بلایا گیا۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں نے حملہ کر کے 140 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی ۔
یہ بھی پڑھیں:سانحہ پشاور: 'ہم آج کے دن کے دکھ کو کبھی نہیں بھول سکتے'
اس المناک واقعے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف جون 2014 سے جاری آپریشن 'ضرب عضب' میں بھی تیزی لائی گئی اور اس کا دائرہ کار دیگر علاقوں تک بڑھایا گیا۔
سانحہ پشاور کی دوسری برسی کے موقع پر منعقد تقریب میں حال ہی میں پاک فوج کی کمان سنبھالنے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ ہمیں یاد ہے کہ ہمارا کتنا خون بہا ہے، ہم شہدائے آرمی پبلک اسکول کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ تمام قوم، پاک فوج اور ادارے شہداء کے والدین اور اہلخانہ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔