مذہب کی جبری تبدیلی: سندھ حکومت کا بل پر نظرثانی کا فیصلہ
کراچی: سندھ حکومت نے صوبائی اسمبلی سے حالیہ دنوں میں منظور ہونے والے اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے بل پر نظرثانی کا فیصلہ کرلیا۔
یہ فیصلہ مذہبی اسکالرز کی جانب سے بل کی چند شِقوں پر اعتراض کے بعد سامنے آیا۔
اس فیصلے کا اشارہ پارلیمانی امور کے سینئر وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو کے پالیسی بیان میں سامنے آیا۔
نومبر کے آخری ہفتے میں صوبائی اسمبلی سے بِل منظور ہونے کے بعد مذہبی اسکالرز نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ بل کی بعض شِقیں اسلامی تعلیمات کے خلاف اور آئین سے متصادم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی پر 5 سال قید کی سزا
نثار کھوڑو نے اپنے پالیسی بیان میں قرآن پاک کی سورۃ البقر کی آیت 256 کا حوالہ دیا، جس کے مطابق ’مذہب جبری طور پر تبدیل نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کوئی مسلمان تعلیمات کے خلاف نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی ایسا کوئی قانون بنا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر شخص کے شادی کرنے پر پابندی ہے، لیکن مذہب کی تبدیلی کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں، اس لیے اس معاملے کو شادی کی عمر سے نہیں جوڑا جانا چاہیے اور اس غلط فہمی کو ختم کیا جانا چاہیے۔‘
مزید پڑھیں: 'پاکستان میں مذہبی آزادی کی بدترین صورتحال'
نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ ’مذہب کی جبری تبدیلی اور 18 سال سے کم عمر میں شادی شریعت و آئین کے منافی ہے اور سندھ اسمبلی نے شریعت و آئین کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق بل گورنر کو دستخط کے لیے بھیج دیا گیا ہے، اب وہ اس پر دستخط کریں یا نہیں بل پر دونوں صورتوں میں نظر ثانی اور اسمبلی کے ذریعے ترمیم کی جائے گی۔‘
یہ بھی پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی پر ہندو برادری خوفزدہ
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت اس معاملے کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہتی، اس لیے اسمبلی بل کی شقوں کا دوبارہ جائزہ لے گی۔‘
یہ خبر 17 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔