پاکستانی کپتانوں پر گذشتہ دو مضامین میں ہونے والی بحث نے چند دلچسپ دلائل کو جنم دیا۔ تمام دلائل بہت دانائی پر مبنی نہیں تھے، لیکن یہ قابلِ فہم ہے۔ بحث کے دوسرے حصے میں ردِعمل بحث کے پہلے حصے میں ملنے والے ردِعمل کا صرف 12 فیصد تھا؛ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پہلے سونامی میں اٹھائے گئے نکات پر دوسرے حصے میں روشنی ڈال دی گئی تھی۔ یا پھر شاید وہ امید کھو بیٹھے ہوں؟ کون جانتا ہے؟
پھولوں سے پتھروں تک، عوامی ردِعمل پروفیشنل لائف کا حصہ ہے۔ اگر آپ پھولوں سے اتنے متاثر ہوجائیں کہ پتھر برسنے پر ہمت ہار جائیں، تو کچھ بھی لکھنا ناممکن ہوگا۔
لہٰذا ان تمام لوگوں کا شکریہ، جنہوں نے ای میلز کیں، لائک کیے، اور مضامین کو مختلف فورمز پر آگے پھیلایا۔ اس میں قدرتی طور پر وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے 'بے وقوف' اور 'پاگل' جیسے غیر پارلیمانی الفاظ کا بھرپور استعمال کیا۔
یہ واضح تھا کہ توجہ کھیل سے ہٹ کر قومی سیاست کی جانب مڑ گئی تھی۔ کچھ لوگوں نے مجھے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی ویب سائٹ پر موجود عمران خان کی ویڈیوز کے لنک ارسال کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اس ملک کو حاصل سب سے بہترین شخصیت ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ تبصرے ایسے تھے کہ عمران ہی سب سے اچھے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی بھی بحث صرف مضحکہ خیز ہے۔ ہاں۔ یہ شاید قابلِ فہم ہے۔ مگر اس کے بارے میں کیا خیال ہے: "عمران بہترین تھے اور ہمیشہ بہترین رہیں گے۔"
مزید پڑھیں: کپتان مصباح بمقابلہ کپتان عمران- پہلا حصہ
بات کو سمجھیں، آپ اپنے جوش و جذبے میں قوم کا مستقبل گروی رکھ رہے ہیں۔ عمران خان بھی اس رویے کی حمایت نہیں کریں گے۔ پوچھ کر دیکھ لیں۔
کچھ لوگوں نے بحث کو "بے معنی" قرار دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ عمران اور مصباح الحق دونوں اپنی اپنی جگہ بہترین ہیں۔ غالب نے اکثر زندگی کی بے مقصدیت پر بات کی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہر چیز اور کوئی بھی چیز بے معنی ہو سکتی ہے، مگر اچھی بات یہ ہے کہ زندگی کے بارے میں ان ارشادات کے باوجود غالب جیتے رہے، اور اپنی زندگی کا پورا مزہ اٹھاتے رہے۔
اس طرح کے موازنے صرف کسی شخص کی تاریخی کامیابی کو تسلیم کرنے کی ایک طویل عرصے سے چلی آ رہی روایت کا حصہ ہیں۔ اس معاملے میں بحث اس لیے چل پڑی کیوں کہ مصباح نے طویل ترین عرصے تک قومی ٹیم کی کپتانی کا اعزاز عمران خان سے حاصل کیا۔
اور وہ لوگ جنہوں نے ایک شخص کی برائی کر کے دوسرے شخص کی تعریف کرنے کی "قومی عادت" کی مذمت کی، ہمیں انہیں یہ سادہ اور واضح حقیقت یاد دلانی چاہیے کہ بحث چار بہتر افراد میں سے بہترین چننے کے متعلق تھی۔ ان چاروں اشخاص میں سے کسی ایک کو بھی برا یا کمتر قرار دینے کا نہ مقصد تھا اور نہ امکان۔ ذرا سا بھی نہیں۔ جب لوگ سچن ٹنڈولکر کی 51 سنچریوں کو ڈان بریڈمین کی 29 یا جاوید میاں داد کے 8832 رنز پر یونس خان کے 9668 رنز (جاری ہیں) کا انتخاب کرتے ہیں، تو کسی کا بھی مقصد دوسرے شخص کو کمتر قرار دینا نہیں ہوتا۔
کئی لوگوں نے ایک تکنیکی نکتہ اٹھایا جس میں کافی مقصدیت موجود ہے: یہ کہ عمران کی فتوحات کا معیار مصباح کی حاصل کردہ کسی بھی کامیابی سے بلند ہے، کیوں کہ عمران خان کا پالا مصباح کے مقابلے میں کہیں سخت حریف ٹیموں سے پڑا تھا۔
یہ ایک بامقصد بحث کے لیے متوازن نکتہ ہے۔
مگر دو چیزیں ہیں جن پر توجہ دینی چاہیے۔ وہ یہ کہ اگر ویسٹ انڈیز کی ٹیم اتنی خطرناک حریف نہیں رہی جتنی کہ وہ ماضی میں تھی، تو اس حقیقت کو مصباح کے خلاف نہیں پیش کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: کپتان بمقابلہ کپتان (دوسرا حصہ)
اسی طرح اگر ہندوستان پاکستان کے خلاف نہیں کھیل رہا، تو اس سے بھی مصباح میں منفی پہلو نہیں نکلتا۔
آگے بڑھتے ہیں، اسی طرح اگر پاکستان کرکٹ بورڈ بہتر ٹیموں کے ساتھ میچز منعقد کروانے میں ناکام رہتا ہے، تو اس کا الزام بھی کھلاڑیوں کو نہیں دیا جا سکتا۔ وہ انہی ٹیمز کے خلاف کھیلیں گے، جو دستیاب ہوں گی اور پاکستان کے ساتھ کھیلنا چاہیں گی۔ دوسری بات یہ کہ اگر ہم شماریات کی بات کریں تو ہمیں تھوڑی دیر کے لیے اپنے خیالات و مفروضوں کو ایک طرف رکھنا پڑے گا۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مصباح کی زیرِ قیادت فتوحات زیادہ تر متحدہ عرب امارات میں آئی ہیں، جنہیں آسان تصور کرنا چاہیے۔ الزام لگایا گیا کہ کیوں کہ میں نے انہیں آسان تصور نہیں کیا، اس لیے یہ "عمران خان کے خلاف میرے ذاتی عناد" کا عکاس ہے۔
"ورلڈ کپ پاکستان لانے والے شخص" اور "دیوار سے لگائے گئے شیروں" کے بیانیے کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ یاد رکھیں کہ ہم یہاں شماریات کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، مفروضوں اور نظریات کے حوالے سے نہیں۔ اگر ہم دونوں کو ملائیں گے، تو آپ کو یہ ملے گا: پاکستان، "دیوار سے لگایا گیا شیر" ہونے کے باوجود، سیمی فائنلز سے بہت پہلے ہی ٹورنامنٹ سے باہر نکل چکا ہوتا۔ 40.2 اوورز میں 74 رنز بنانے کے بعد آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، خاص طور پر تب جب انگلینڈ نے آٹھ اوورز میں ہی 24 رنز بنا لیے تھے۔ اگر ایڈیلیڈ میں بارش نہ ہوجاتی تو پاکستان کی گھر روانگی میں صرف ایک گھنٹہ باقی رہ گیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جس نے پاکستان کو ٹورنامنٹ میں رہنے کا موقع، اور وہ کچھ کر دکھانے کا موقع فراہم کیا جو اب تاریخ کا حصہ ہے۔
اگر ایک اور گھنٹہ بارش نہ ہوئی ہوتی، تو بڑھا چڑھا کر پیش کیے جانے والے "دیوار سے لگائے گئے شیروں" کے بیانیے کو آج کون پوچھتا؟ کیا کسی کو 1987 کا ورلڈ کپ یاد ہے جس میں پاکستان فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا مگر فائنل تک پہنچنے میں ناکام رہا؟ بارش نہ ہوتی تو 1992 میں بھی یہی ہوتا۔
اور ہاں، ایڈیلیڈ میں ہونے والی بارش میں قدرت کا کمال تھا، "زخمی شیروں" کا نہیں۔ مگر ہمیں جو یاد ہے، وہ اعداد و شمار کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ، کہ پاکستان جیتا۔ کس طرح جیتا، یہ ہمیں یاد نہیں۔ حال ہی میں پاکستان کا نمبر ون ٹیسٹ ٹیم بننے کا اعزاز بھی اعداد و شمار کا کھیل تھا، کیوں کہ یہ بھی ہمیں ہمارے کسی کارنامے کی وجہ سے نہیں حاصل ہوا، بلکہ اس لیے کیوں کہ آسٹریلیا سری لنکا میں اور ہندوستان ویسٹ انڈیز میں کچھ کر دکھانے میں ناکام رہا۔ مگر جس کسی نے بھی اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی، انٹرنیٹ پر سرگرم اور نمبر ون کا جشن مناتی سائبر مافیا نے ان کے خوب لتے لیے۔