نقطہ نظر

'لاڈلے‘ امپائروں کے 'سرپرائز'

پاکستان کے سب سے بڑے ڈومیسٹک ایونٹ قائد اعظم ٹرافی میں امپائرنگ کے پست معیار نے ایک ٹیم کو فائنل سے باہر کردیا۔

حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم میں قائد اعظم ٹرافی کااہم ترین میچ کھیلا جارہا تھا۔ دونوں ٹیمیں اس میچ کی پہلی اننگز میں برتری کی بنیاد پر فائنل کیلئے کوالیفائی کرسکتی تھیں۔ پہلی ٹیم اپنی باری میں 353 رنز بناتی ہے جبکہ دوسری ٹیم کا اسکور 5 وکٹوں پر 239 تھا اور اس کا ایک بیٹسمین 90رنز پر کھیل رہا تھا۔ 90رنز پر کھیلنے والا بیٹسمین اسپنر کی گیند پر سوئپ کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ گیند زمین سے ٹکرانے کے بعد فیلڈر کے ہاتھوں میں جاتی ہے اور نان اسٹرائیکر اینڈ پر کھڑا امپائر اسکوائر لیگ پر کھڑے امپائر سے مشورہ کرنے کے بعد بیٹسمین کو آؤٹ دے دیتا ہے!

امپائرنگ کے اس بدترین فیصلے کے بعد دوسری ٹیم 306 رنز بنانے کے بعد نہ صرف پہلی اننگز میں برتری سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے بلکہ فائنل سے بھی باہر ہوجاتی ہے۔

پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ میں امپائرنگ کا یہ حال ہے جس کے اہم ترین میچ میں امپائر کا بدترین فیصلہ بلکہ ’’سرپرائز‘‘ نہ صرف میچ کے فیصلے پر اثر انداز ہوا بلکہ فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کا دارومدار بھی بہت حد تک اس فیصلے پر ہوا۔ اس سے قبل سپر ایٹ کے ایک میچ میں کے آر ایل کیخلاف بھی دو تین فیصلے ایسے گئے جس نے حبیب بینک کی جیت کا سامان کردیا۔

علیم ڈار لگاتار تین مرتبہ سال کے بہترین امپائر کا آئی سی سی کا ایوارڈ اپنے نام کر چکے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسی طرح دیگر ایونٹس میں بھی براہ راست نشر ہونے والے میچز میں بھی ایسے سرپرائز ملتے ہیں کہ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ دیکھنے والوں کو بھی اپنے بال نوچنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ مگر یہ امپائر مسلسل ڈومیسٹک کرکٹ میں امپائرنگ کررہے ہیں جبکہ میچ ریفری کا کردار محدود ہے جو کھلاڑیوں کی کوتاہیوں پر اختیارات پوری طرح استعمال کرتے مگر اپنے ’’ساتھیوں‘‘ کی غلطیاں انہیں نظر نہیں آتیں۔

ماضی میں بھی پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں امپائرنگ کا معیار کافی پست ہوتا تھا جبکہ موجودہ دور میں بھی اس معیار میں بہتری نہیں آئی لیکن سوشل میڈیا کی ’’بدولت‘‘ امپائرنگ کی یہ غلطیاں اب چھپی نہیں رہ سکتیں کیونکہ وکٹ کے دونوں اینڈز پر لگے ہوئے کیمرے باآسانی ان غلطیوں کو آشکار کر دیتے ہیں۔ ایسی ویڈیوز کو میچ کے بعد ٹیموں کے کوچز پورے ’’احترام‘‘ کیساتھ ’’ریلیز‘‘ کردیتے ہیں جس کے بعد سوشل میڈیا پر ’’شیئر‘‘ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔

گزشتہ سیزن میں قائد اعظم ٹرافی کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں ایک ٹیسٹ باؤلر بال ٹیمپرنگ کرتے ہوئے کیمرے کی زد میں آگیا تھا اور مخالف ٹیم نے فوری طور پر یہ ویڈیو ریلیز کرنے کی کوشش کی جسے پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے رکوا دیا کیونکہ سینٹرل کنٹریکٹ کے حامل کھلاڑی کی ایسی ’’حرکت‘‘ پی سی بی کیلئے بھی مشکلات کا سبب بن سکتی تھی۔

ایسی ویڈیوز ریلیز کرنے کے حوالے سے پی سی بی نے کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ امپائرز کی غلطیوں کو کیسے ٹھیک کیا جائے۔

پاکستان میں ایسا کوئی بھی امپائر نظر نہیں آتا جوعالمی شہرت یافتہ پاکستانی امپائر علیم ڈار کے معیار کو چھو سکے جنہوں نے بحثیت امپائر عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔ علیم ڈار کے ساتھ اسد رؤف کی جوڑی انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کی شان کا سبب تھی۔ اسد رؤف کو افسوسناک انداز میں امپائرنگ کے شعبے سے دور ہونا پڑا جبکہ علیم ڈار کو آئی سی سی آہستہ آہستہ میدانوں سے دور کررہی ہے۔

علیم ڈار متعدد مرتبہ یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں فرائض سر انجام دینے والے امپائرز کو بھی سینٹرل کنٹریکٹ دیا جائے تاکہ وہ زیادہ ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے سکیں جبکہ علیم ڈار کا ایک اوردرینہ مطالبہ فرسٹ کلاس میچز کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنا بھی ہے تاکہ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ امپائرنگ کے معیار کو بھی پرکھا جا سکے۔

علیم ڈار کے یہ دونوں مطالبے بالکل درست ہیں جس پر فوری طور پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے مگر اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ جب تک امپائرز کو بہتر معاوضہ نہیں ملے گا یا میچز ٹیلی کاسٹ نہیں ہوں گے تو ان کے معیار میں بہتری نہیں آئے گی۔ ڈومیسٹک کرکٹ کے ون ڈے اور ٹی20 میچز براہ راسٹ ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں مگر ان میچز میں بھی امپائرز کی غلطیاں کسی سے ڈھکی ہوئی نہیں ہیں اور اگر ایک امپائر کسی ٹی20 میچ میں غلطی کررہا ہے تو پھر وہ فرسٹ کلاس میں بھی وہی غلطیاں دہرائے گا کیونکہ فارمیٹ کی تبدیلی اس کی امپائرنگ کے معیار کو بہتر نہیں کرسکتی۔

اب وہ وقت آگیا ہے کہ صرف کھلاڑیوں کی ’’کھنچائی‘‘ کرنے والا پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے ’’لاڈلے‘‘ امپائرز کی غلطیوں پر بھی ایکشن لے اور امپائرز کیلئے بھی ترقی اور تنزلی کا معیار طے کرے تاکہ خراب امپائرنگ کرنے والوں کو بھی اس بات کا ادراک ہو کہ بھیانک غلطیوں کے ردعمل میں ان کا کیرئیر آگے بڑھنے سے رک سکتا ہے۔ ماضی میں پی سی بی نے ایسے امپائرز کو ’’سزائیں‘‘ نہیں جس کے باعث انٹرنیشنل کرکٹ میں یہ امپائرز پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں جبکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں امپائرنگ کی غلطیوں پر قابو نہ پایا گیا تو پھر امپائرنگ کا یہ گرتا ہوا معیار کھیل کے معیار میں بھی تنزلی کا باعث بنے گا!


یہ مضمون ابتدائی طور پر کرک نامہ ڈاٹ کام پر شائع ہوا، اور با اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے.

فرحان نثار

فرحان نثار مختلف اخبارات، جرائد اور ویب سائٹس کے لیے کرکٹ کے موضوع پر کالمز اور بلاگز لکھتے ہیں کئی پاکستانی کرکٹرز کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: farhanwrites@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔